حکام نے تصدیق کی ہے کہ امدادی سامان لے کر 61 گاڑیوں کا قافلہ بدھ کے روز سخت سیکیورٹی میں کرم پہنچ گیا۔
آٹے، ادویات اور سبزیوں سے لدے ٹرکوں کے قافلے کو پولیس، ضلعی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز کی حفاظت میں لے جایا گیا، یہ قافلہ بگن کے راستے شورش زدہ ضلع کرم کے علی زئی علاقے میں پہنچا، جہاں 16 جنوری کو اسی طرح کے ایک قافلے پر حملہ ہوا تھا، جس میں 2 سیکیورٹی اہلکار شہید اور 8 ٹرک ڈرائیور جاں بحق ہوئے تھے۔
قافلہ دوپہر ایک بجے پارا چنار کے لیے روانہ ہوا تھا، سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے لیے ذمہ دار کسی بھی شخص سے نمٹا جائے گا۔
دریں اثنا، خیبر پختونخوا حکومت نے کرم میں متحارب دھڑوں کے درمیان 31 دسمبر، 2024 کے امن معاہدے پر دستخط کرنے والوں پر مشتمل جرگہ بلانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے، اس کا مقصد انہیں ضلع میں امن و امان برقرار رکھنے کی ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کرانا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت اجلاس میں صوبائی پولیس چیف، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور دیگر حکام نے شرکت کی، ایک سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ضلع میں بنکروں کو منہدم کرنے کا کام فوری طور پر دوبارہ شروع کیا جائے گا، اس عمل کی باقاعدگی سے نگرانی کی جائے گی، عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے انتظامات کو بھی ترجیح دی جائے گی۔
اجلاس کے دوران اس بات پر زور دیا گیا کہ سیاسی قیادت اور عوامی نمائندے امن کی بحالی کے لیے واضح اقدامات کریں، دونوں اطراف کے عسکریت پسندوں اور انتہا پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے کے عزم کو بھی اجاگر کیا گیا۔
اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دونوں دھڑے جلد از جلد ضلع کرم کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا طریقہ کار حکومت کو پیش کریں، ضلعی انتظامیہ اور پولیس دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ایف آئی آر میں نامزد مشتبہ افراد کی گرفتاری کی کوشش کرے گی۔
حکومت نے امن میں خلل ڈالنے والے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کو یقینی بنانے کا بھی فیصلہ کیا ہے، کرم روڈ کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی دستے تعینات کیے جاسکتے ہیں اور پولیس سیکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے عارضی اور مستقل بھرتیوں کے منصوبوں کو حتمی شکل دے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بگن بازار کی بحالی اور خوبصورتی کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے جائیں گے، کرم کی صورتحال پر یکساں بیانیہ میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے گا اور منفی پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔
فوجی آپریشن ختم
کرم کے علاقے اوچاٹ، چارخیل، دادکمر اور زرانہ میں شرپسندوں کے خلاف فوج کی زیر قیادت آپریشن 4 روز بعد بدھ کو اختتام پذیر ہوا، ضلعی انتظامیہ نے ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ ضبط کرنے اور 8 بنکروں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، حکام نے خبردار کیا کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی۔
پاراچنار سے پشاور جانے والی 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد ٹل پارا چنار روڈ 21 نومبر سے بند ہے، بگن میں ہونے والے اس حملے میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے اور 2 گروپوں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئی تھیں۔
اس واقعے کے بعد، بگن بازار پر حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں 500 سے زیادہ دکانیں اور 600 گھر جلا دیے گئے، جس کے بعد سڑک کی بندش سے کرم میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی۔
23 نومبر کو کے پی حکومت کی ایک کمیٹی کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی میں 7 دن کی توسیع کردی گئی تھی، بعد ازاں ایک گرینڈ جرگے نے 31 دسمبر کو نازک امن معاہدے پر بات چیت کی، تاہم اس معاہدے کو اس وقت بڑا دھچکا لگا، جب 16 جنوری کو امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا گیا جس میں ٹرک ڈرائیور اور سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے، اس کے نتیجے میں 19 جنوری کو بگن میں فوجی آپریشن ہوا، جس گزشتہ روز ختم کر دیا گیا۔