وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نیب راولپنڈی میں پیش ہوگئے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی پیشی کے موقع پر نیب اولڈ ہیڈ آفس کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات تھے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
نیب نے وزیراعلیٰ سندھ کو سولر لائٹس کیس میں غیر قانونی ٹھیکے دینے اور سندھ روشن پروگرام کے کیس میں طلب کیا تھا۔
نیب میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ نیب کے سوالات کے جواب دیے، سوال تھا کہ سولر سکیم بجٹ میں نہیں تھی بعد میں منظوری دی گئی، پوچھا گیا کہ بجٹ میں جو اسکیم شامل نہیں تھی منظوری کیوں دی گئی ؟
مراد علی شاہ نے بتایا انہوں نے جواب دیا کہ آئین کے مطابق بجٹ میں شامل نہ ہونے والی سکیم کی بھی اجازت دی جاسکتی ہے، آئین اور قانون کے مطابق سولر سکیم کی منظوری دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب کے سوالات کے جواب دئیے اور کوشش کی کہ آئینی حقیقت سے ان کو آگاہ کریں ، ابھی سوالنامہ دیا نہیں لیکن کہا گیا کہ مجھے سوالنامہ دیا جائے گا۔
کورونا سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جہاں ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے اس کا الزام لوگوں کو نہیں دوں گا، حکومت کی جانب سے کورونا وبا سے متعلق مکس پیغامات عوام تک گئے اس سے متعلق عوام کو ایک پیغام جانا چاہیے کہ یہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی میں کورونا وبا زیادہ ہے،تمام اقدامات طبی ماہرین کی مشاورت سے کیے، وزیراعظم کو پورے ملک اور انسانی جانوں کا سوچ کر فیصلے کرنے چاہئیں، میں کسی فیصلے میں وفاقی حکومت کے خلاف نہیں گیا، این سی سی میں فیصلے کے باوجود کچھ صوبوں نے مارکیٹیں کھولیں، باقی صوبوں نے مارکیٹیں کھولیں تو عدالت نے ہم سے مارکیٹوں سے متعلق پوچھا۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت نے سٹیل ملز میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ اگر ملازمین کو حق نہیں ملا تو ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، ہم سٹیل ملز ملازمین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ پر سولر لائٹس کیس میں غیر قانونی ٹھیکے دینے کا الزام ہے اور سندھ روشن پروگرام میں نیب 298 ملین روپے ریکور کر چکا ہے، منصوبے میں شامل دو کمپنیوں نے پلی بارگین میں رقم واپس کی تھی جب کہ 4 ملزمان بھی اس کیس میں پلی بارگین کرچکے ہیں۔