ایک وقت تھا جب پاکستان کا شمار زراعت میں خودکفیل دنیا کے دس بڑے ممالک میں ہوتا تھا لیکن جنرل ایوب خان کے دور حکومت کے بعد ہماری زراعت روبہ زوال ہوئی‘ اس کی بڑی وجہ ہماری کمزور معیشت‘ ڈیموں کی مزید تعمیر نہ ہونا‘ موجودہ ڈیموں کی مرمت نہ ہونا‘ حکومت کی محکمہ زراعت بارے میں عدم توجہی اور دن بہ دن آئی ایم ایف کے قرضوں و غلامی کی دلدل میں دھنسنا ہے‘ 2020 پوری دنیا کےلئے بری خبر لایا ہے۔ کورونا وائرس پر ابھی قابو بھی نہیں پایا گیا کہ قحط سالی کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے‘ حکومت جس نے کورونا وائرس سے نمٹنے کےلئے اربوں روپے مختص کئے ہیں اب ٹڈی دل کی وباءسے نبردآزما ہونے جا رہی ہے جبکہ ہماری معیشت پہلے سے خرابی کا شکار ہے‘ اس سال پاکستان میں گندم اور دوسری فصلوں کی کاشت کے بعد غلط وقت پر شدید بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ کہیں کہیں ژالہ باری بھی ہوئی جس سے کھیتوں میں کھڑی گندم اور دوسری فصلیں تباہ ہوگئےں‘ ہمارا ملک ڈیموں کی مزید عدم تعمیر کی وجہ سے پہلے سے ہی خشک سالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے زرعی اجناس کی پیداوار میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے‘ اس سال مسلسل بارشوںنے جلتی پر تیل والا کام کیا ہے‘اس ساری صورتحال میں رہی سہی کسر ٹڈی دل نے پورے ملک کی فصلوں و میوہ جات کے باغات پر حملہ کرکے پوری کر دی ہے‘ یہ ٹڈی دل افریقہ سے بحیرہ ہند سے ہوتے ہوئے پاکستان‘ ایران اور ہندوستان پر حملہ آور ہوئی ہے‘ جو تاحال تباہی مچا رہی ہے‘ اگرچہ یہ ٹڈی دل ہر سال حملہ آور ہو کے فصلوں کو کھا جاتی ہے لیکن اس سال اسکا حملہ پچھلی کئی دہائیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے‘ جسکی وجہ سے اس سال شدید قحط سالی کا خطرہ ہے‘ جبکہ اب ایران کی طرف سے بھی ٹڈی دل کے حملے کا خطرہ ہے‘ اسوقت ملک کے ہر صوبے کے بیشتر علاقوں کی فصلیں ٹڈی دل کے حملوں کی زد میں ہیں‘ ان حشرات کے شدید حملوں میں صوبہ بلوچستان سرفہرست ہے جبکہ باقی صوبے بھی اس کے نشانے پر ہیں‘ملتان‘ راجن پور‘ کندھ کوٹ‘ ضلع مظفر گڑھ شدید متاثر ہوئے ہیں۔
آم‘ کپاس‘ گندم اور دوسری کئی فصلیں یا تو مکمل خراب ہو گئی ہیں یا ناکارہ ہو گئی ہیں‘ایک طرف پاکستان کو ان مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف بدعنوان عناصر اور نااہل افراد بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں‘ جن کااپنی تجوریاں بھرنے کے علاوہ نہ کوئی وژن ہے نہ سوچ اور نہ ہی ملک و عوام کی فکر۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں آٹے اور چینی کا بحران تھا جس پر وزیراعظم عمران خان کو مجبوراً ایکشن لینا پڑا‘حال ہی میں بڑے پیمانے پر گندم چوری میں سندھ حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ملوث پائے گئے۔ ٹڈی دل کی اس موجودہ آفت سے نمٹنے کےلئے حکومت نے اقوامِ متحدہ سے مدد طلب کر لی ہے‘ اقوام متحدہ نے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ اسکے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے حکومت پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ ٹڈی دل کے موجودہ حملے پچھلی کئی دہائیوں کے حملوں سے زیادہ شدید ہیں جن سے کئی کروڑ پاکستانی قحط سالی کا شکار ہو جائیں گے‘ اسلئے اس آفت سے نمٹنے کےلئے جلدازجلد کیمیکل سپرے اور دوسرے حفاظتی اقدامات کرنے کی تلقین کی ہے‘رپورٹ میں مزید کہاگےا ہے کہ چونکہ اس سال پاکستان میں مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں تو یہ حالت تشویشناک ہے کیونکہ ٹڈیوں کی افزائش نسل بارشوں میں بہت تیزی سے ہوتی ہے‘ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک مربع کلومیٹر پر ٹڈیاں اےک ہزار انڈے دے سکتی ہیں جبکہ درمیانے درجے کا ایک غول یومیہ تقریباً 35 ہزار افراد کی خوراک کھا سکتا ہے اور کروڑوں ٹڈیاں ہوا کے رخ پر روزانہ اندازاً 150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر سکتی ہےں۔
چین نے ایک لاکھ چینی بطخیں دینے کی آفر کی ہے جو ان حشرات کو شوق سے کھاتی ہیں‘ ایک بطخ روزانہ سینکڑوں کے حساب سے ٹڈیاں کھا جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی نے سپرے کےلئے ایک جہاز بھیجا ہے‘حکومت پاکستان نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر ٹڈی دل سے نمٹا جائے تاکہ قحط سالی کی روک تھام ممکن ہو سکے‘ جس پر این ڈی ایم اے نے پوری طرح عملدرآمد شروع کر دیا ہے ‘اب تک پورے ملک مےں60 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کے سب سے زیادہ‘پنجاب دوسرے اور خیبر پختونخوا تیسرے نمبر پر ہے‘ این ڈی ایم اے کے ترجمان کے مطابق لاکھوں ہیکٹررقبے کا سروے کیا گیا ہے جس میں ہزاروں ایکڑ زمین کا ٹریٹمنٹ ہوا ہے جبکہ باقی کا ابھی جاری ہے‘ جہاں جہاں پر حکومتی امداد کا فقدان ہے وہاں پر کسان اپنی مدد آپ کے تحت ٹڈیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔