شہری اپنی زندگی اور روزگار خود خطرے میں ڈال رہے ہیں ٗ اسد عمر

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و مراعات اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر(این سی او سی) کے سربراہ اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر ہمارے فیصلے سے ایک شخص کی بھی زندگی خطرے میں پڑے تو یہ ناقابل معافی ہے۔ اسلام آباد میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ پچھلے 100روز میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم 1900 سے زائد پاکستانیوں سے جدا ہوگئے ہیں جو اس بیماری کے باعث انتقال کرگئے ہیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم ایک ایسے خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں یہ وبا دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس اتنی مہلک ثابت نہیں ہوئی لیکن اس بات سے بھی نظر نہیں چرائی جاسکتی کہ ہر انسانی جان قیمتی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہ برطانیہ میں ہر 10 لاکھ میں سے 600 جبکہ پاکستان میں ہر 10 لاکھ میں سے کورونا وائرس کے سبب 9 افراد کا انتقال ہوا،ان 1935 میں سے ہر فرد اپنے گھروالوں کے لیے پوری دنیا رکھتا تھا۔ اسد عمر نے اس لیے قومی پالیسیوں میں تمام چیزوں کو خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن یہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہم فیصلے کررہے ہیں ان کی وجہ سے ایک شخص کی بھی زندگی خطرے میں پڑے وہ ناقابل معافی ہے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں وبا کے پھیلاؤ کو کم کرنا ہے کیونکہ اسے روکا نہیں جاسکتا اور اس میں اتنی کمی کرنی ہے کہ نظام صحت مفلوج نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنا ابھی بھی ہماری اولین ترجیح ہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکا نہیں جاسکتا یہ بالکل غلط سوچ ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وبا کو پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جن چیزوں پر کام ہورہا ہے ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ڈاکٹرز نے جو احتیاطی تدابیر بتائی ہیں ان پر عمل کیا جائے، احتیاطی تدابیر کی بے تحاشا تشہیر کی جاچکی ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارت صحت نے باقاعدہ ہدایات جاری کیں، وزارت اطلاعات و نشریات نے ان ہدایات کو پاکستان کے ہر شہری تک پہنچایا اور سب سے زیادہ کامیاب طریقہ کار یہ ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کو تبدیل کریں اور خود حفاظتی تدابیر اپنائیں۔

اسد عمر نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ حکومت دیکھے کہ لوگ احتیاطی تدابیر نہیں اپنارہے، وہ نہ صرف اپنی زندگی، اپنا روزگار خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ دیگر لوگوں کی زندگیاں اور روزگار بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں تو کچھ نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ اسی لیے پہلے آگاہی دی گئی، پھر تنبیہ کی گئی اور پھر قومی رابطہ کمیٹی(این سی سی) کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا اور انتظامیہ کو احکامات جاری کیے گئے جہاں احتیاطی تدابیر پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا وہاں انتظامی کارروائی کی جائے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اسد عمر نے گزشتہ چند روز میں بڑے پیمانے پر انتظامی کارروائیاں کی گئیں، دکانیں اور بازار بند کیے گئے، ٹرانسپورٹ میں جہاں ایس او پیز کی خلاف ورزیاں کی گئیں وہاں اقدامات کیے گئے، یہ سب ہم خوشی سے نہیں کررہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنرز، پولیس کے آئی جی کو ایسا کرنے کا کوئی شوق نہیں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے 21 کروڑ عوام کی صحت کی حفاظت کی جائے، یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ان کے کاندھوں پر ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب کو روزگار کمانے کا حق ہو اور کاروبارِ زندگی کا پہیہ چلتا رہے، آپ کو روزگار کمانے کا حق ہے، آزادی سے زندگی گزارنے کا حق ہے لیکن یہ آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں آپ کسی دوسرے کی آزادی کو سلب کرنے کے اقدامات کریں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور تمام وزرائے اعلیٰ نے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔ اسد عمر نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ مقامی سطح پر جہاں زیادہ کیسز سامنے آئیں وہاں نشاندہی کرکے بندشیں لگائی جائیں اور لاک ڈاؤن کیا جائے اور اس وقت پاکستان کے 884 مقامات پر لاک ڈاؤن کے اقدامات نافذ ہیں اور تقریباً 2 لاکھ سے زائد آبادی اس کے زیر اثر ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ طبی نظام میں بہتری لانا بھی ہماری ترجیح ہے، ہم نے تیزی سے اس میں اضافے کی کوشش کی، اس حوالے سے ٹیسٹنگ کے نظام کو بہتر کیا گیا، 26 فروری کو جب پہلا کیس سامنے آیا تو پاکستان 8 لیبارٹریز کام کررہی تھیں اور 472 ٹیسٹ کیے گئے تھے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ملک میں 100 سے زائد لیبارٹریز کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور یومیہ 22 سے 23 ہزار ٹیسٹ کیے جارہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں 40 سے 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کے نظام میں مزید صلاحیت موجود ہے اور آج 35 سے 36 ہزار تک ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں۔ اسد عمر نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لیے بستر مختص کیے گئے اور وینٹی لیٹرز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے کام کیا گیا، اس وقت ملک میں وینٹی لیٹرز کی تعداد میں 2 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اسی طرح این-95ماسک اور دیگر حفاظتی سامان ملک کے سائنسی شعبے اور صنعتوں نے مل کر تیار کیا اور اب ہمیں برآمد کے آرڈرز بھی موصول ہورہے ہیں۔