تیل کابحران

 آٹے اور چینی بحران کے بعد پی ٹی آئی حکومت کو تیل بحران کا سامنا ہے‘ کچھ بحران تو خدائی آزمائش یا مصیبت کے طور پر آسمانی نازل ہوتے ہیں جیسا کہ ٹڈی دَل کا حملہ‘ چمگادڑوں کا حملہ‘ کورونا وباءوغیرہ جبکہ کچھ بحران ہمارے ( خواص و عوام ) کے برے اعمال کی وجہ سے نازل ہوتے ہیں جیسا کہ آٹے‘ چینی اور تیل کی مصنوعی قِلت‘ اصل میں نااہلی‘ اقربا پروری‘ کرپشن اور بدعنوانی پورے معاشرے میں کینسر کی طرح سرائیت کر چکی ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ کوئی حکمران کتنا ہی بڑا عالم فاضل کیوں نہ ہو لیکن جب تک ان کے مشیر خاص بھی اس جیسے مخلص و دوراندیش نہ ہوں تو ملک میں خرابی ہو گی‘ اب اس طرح کا معاملہ وزیراعظم عمران خان صاحب کے ساتھ بھی پیش آرہا ہے جبکہ اس کے مشیر خاص ہی اس مصنوعی بحرانوں کے ذمہ دار ہیں‘ مثلاً گزشتہ آٹے اور چینی کے بحران میں عمران خان کے قریبی ساتھیوں و مشیروں کے نام آرہے ہیں جس کی تصدیق یا تردید کمیشن رپورٹ آنے کے بعد ہو سکے گی‘ دوسری طرف حکومتی عہدیداروں کے شریک ہونےکی بھی اطلاعات ہیں اور جن کی ساری سوچیں عوام کا خون چوسنے اور اپنی جیبیں گرم کرنے پر مرکوز ہوتی ہیں‘ چند دنوں پہلے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت نے کم کر دیں تو نجی پیٹرولیم کمپنیوں اور پمپوں کے مالکان نے تیل کی فروخت کم یا بالکل بند کر دی اور بلیک میں تیل اپنی پچھلی قیمت سے بھی مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیا‘ جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق کچھ پٹرول پمپ مالکان نے ایک لیٹر 165 روپے تک فروخت کیا‘ عوام تو عوام پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی بھی اس بحران میں ر±ل گئے‘ جب وہ اسمبلی کے سیشن کیلئے گئے تو ایک دوسرے سے کچھ اس طرح پوچھنے لگے کہ آپ کو پٹرول ملا یا گاڑیوں کے لائن میں زیادہ انتظار تو نہیں کرنا پڑا۔

 حکومت پٹرولیم مافیا کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے‘ عوام کا رش پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) پر لگ گیا اور گاڑیوں کی لائنیں لگ گئیںیہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے‘ میں بہت رش سے بچنے کیلئے رات کے ساڑھے دس بجے رنگ روڈ حیات آباد پشاور کے پی ایس او پمپ پر تیل ڈالنے گیا تو پھر بھی پورے ایک گھنٹے بعد تیل ڈالنے کی باری آئی جبکہ دن کے وقت برے حال کا تو آپ لوگوں کو پتہ ہی ہے‘ گھنٹوں لگ جاتے ہیں‘جمعرات 11 جون کو پشاور ہائی کورٹ نے اس کا نوٹس لیا اور حکومت کو تین دن کے اندر اندر تیل کی مصنوعی قِلت کو ختم کرنے کا آرڈر دیا جبکہ وفاقی وزیر پٹرولیم عمر ایوب خان کو عدالت نے طلب کر لیا‘ کیس سماعت کے دوران عمر ایوب خان نے بتایا کہ پیٹرول کی قِلت مصنوعی ہے جو جان بوجھ کر پیٹرولیم مافیا کی طرف سے پیدا کی گئی ہے ‘ حکومت نے اب تک چھ بڑی نجی آئل کمپنیوں کو شوکاز نوٹسز کے علاوہ مجموعی طور پر چار کروڑ کا جرمانہ عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ تیس دن کے اندر اندر جرمانے کی آدھی قیمت ادا کرنے کے بعد سزا کے خلاف آئل کمپنیوں کی اپیل پر نظر ثانی ہو گی‘ لیکن یہاں پر سوال یہ ہے کہ یہ جرمانہ تو بہت ہی کم ہے کیونکہ صرف ایک ہی نجی آئل کمپنی پورے ملک سے ایک دن میں لاکھوں نہیں کروڑوں روپے کماتی ہے‘۔

دوسری بات ہر جگہ اور ہر ادارے میں بیٹھے کرپٹ و مفاد پرست مافیا کا مستقل تدارک یا خاتمہ ایک ہی باری میں کیوں نہیں کیا جاتا‘ جس کیلئے عمران خان صاحب کو عوام نے وزیراعظم منتخب کیا ہے اور ہر واردات کے بعد متعلقہ ادارے کیوں حرکت میں آتے ہیں‘ ان مسائل کی اصل وجہ جو سمجھ میں آتی ہے یہ ہے کہ پاکستان میں بیورو کریسی نظام انگریزوں نے برصغیر کے عوام کو ہمیشہ دبانے اور محکوم رکھنے کیلئے وضع کیا تھا جو 1947 سے اب تک ہمیں ورثے میں ملا ہے‘ جس کو ابھی تک کسی نے بدلنے کی حقیقی کوشش نہیں کی ہے‘ جنرل ایوب خان کے حکم پر ایک رپورٹ بنائی گئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان پر شروع ہی سے بائیس بڑے خاندانوں کی حکومت رہی ہے جو وقت کے ساتھ تھوڑی بہت بدلتی رہتی ہے‘ یہی لوگ ہر حکومت کا حصہ بنتے ہیں اور بیوروکریسی میں بھی بیٹھے ہیں‘ جو ایک” کِنگ میکر “ اور مافیا کی شکل اختیار کر گئے ہیں‘ یہ لوگ اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ بڑے سے بڑے آمر و مطلق العنان حکمران آئے لیکن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘جب تک اس نظام میں چھپے کالی بھیڑوں کی مکمل سرکوبی نہیں کی جاتی تب تک نہ ہمارا ملک و معاشرہ ترقی کرے گا نہ عوام چین کا سانس لے سکیں گے اور ایک کے بعد دوسرا بحران پیدا کیا جاتا رہے گا۔