نیپال بھی ڈٹ گیا: بھارت کے ساتھ متنازعہ سرحدی علاقہ اپنے نقشے میں شامل کرلیا

 نیپال کی صدر بدیا دیوی بھنڈاری نے گزشتہ روز نیپال کے تبدیل شدہ سرکاری نقشے کی توثیق کرتے ہوئے متعلقہ آئینی ترمیم پر دستخط کردیئے ہیں جس میں بھارت کے ساتھ 372 مربع کلومیٹر کے متنازعہ سرحدی علاقے کو بھی نیپال کی حدود میں شامل کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ آئینی ترمیم گزشتہ ہفتے نیپالی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں نے اور بعد ازاں پیر کے روز ایوانِ بالا نے مکمل اتفاقِ رائے سے منظور کی تھی۔ تاہم اس آئینی ترمیم کے حتمی طور پر ر±و بہ عمل ہونے کےلئے نیپالی صدر کی جانب سے بھی توثیقی دستخط ضروری تھے۔ گزشتہ روز یہ کاروائی بھی مکمل ہوگئی۔


نیپالی آئین میں اس ترمیم پر بھارت نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تبدیلی تاریخی حقائق اور شہادتوں کی بنیاد پر یکسر غلط اور ناقابلِ قبول ہے۔ بھارت نیپال کے سرحدی علاقوں لمپیادھورا، لیپولیخ اور کالاپانی پر ملکیت کا دعویدار ہے۔

بھارت اور نیپال میں حالیہ سرحدی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب گزشتہ ماہ بھارت نے اپنی شمالی ریاست اترکھنڈ کو تبت میں چین کے زیرِ انتظام علاقے سے ملانے کےلئے 80 کلومیٹر طویل سڑک کا افتتاح کیا جس کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھارت اور نیپال کے درمیان لیپولیخ کے متنازعہ سرحدی علاقے سے گزرتا ہے۔

بظاہر اس سڑک کا مقصد تبت میں واقع مانسروور جھیل تک پہنچنے کا راستہ مختصر کرنا ہے جسے بدھ مت اور جین مت کے علاوہ ہندو دھرم میں بھی مقدس حیثیت حاصل ہے۔

تاہم اس بارے میں نیپال کا مو¿قف ہے کہ لیپولیخ کا علاقہ اس کی ملکیت ہے اور اس بارے میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سے 1816 میں کیا گیا ہوا معاہدہ، تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ تاریخی طور پر بھی نیپال کبھی تاجِ برطانیہ کا حصہ نہیں رہا اس لیے ہندوستان کی تقسیم سے متعلق برطانوی حکومت کے فیصلے اور معاہدے بھی اس پر لاگو نہیں ہوتے۔ لہذا بھارت یہاں پر سڑکوں سمیت کسی قسم کا کوئی انفرا اسٹرکچر تعمیر کرنے کا استحقاق نہیں رکھتا۔


واضح رہے کہ 372 مربع کلومیٹر کا متنازعہ سرحدی علاقہ تین ممالک یعنی نیپال، چین اور بھارت کے سنگم پر واقع ہے۔ اس علاقے کے قریب ہی گزشتہ چند ہفتوں سے بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں جاری رہی ہیں جن میں بھارت کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔