راشد لطیف نے دورہ انگلینڈ کو پاکستان ٹیم کا مشکل امتحان قرار دے دیا۔
راشد لطیف نے کہاکہ دورئہ انگلینڈ کے لیے منتخب کرکٹرز کی تعداد کچھ زیادہ ہے لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں تھوڑا مارجن دینا چاہیے،خدانخواستہ اگرکسی کا ٹیسٹ مثبت آگیا تو متبادل کا انتظام ہونا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ دورئہ انگلینڈ ایک مشکل امتحان ہوگا، پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، اس بار لندن کے لارڈز اور اوول گراﺅنڈ میں کوئی میچ شیڈول نہیں ہے، ماضی میں وہاں کی کنڈیشنز پاکستان کے لیے سازگار رہی ہیں،اس بار مصباح الحق اور یونس خان جیسے تجربہ کار بیٹسمینوں کی خدمات بھی میسر نہیں ہوں گی۔
انھوں نے کہا کہ یونس خان کا بطور بیٹنگ کوچ تقرر ایک اچھا فیصلہ ہے،وہ میدان میں کام کرنے والے انسان اور بہت محنتی ہیں، جونیئر کوچ کے طور پرخدمات حاصل نہ کرنا پی سی بی کی غلطی تھی، میرے خیال میں ان کا طویل مدت کے لیے تقرر کیا جانا چاہیے، وہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں، جونیئر سے لے کر قومی ٹیم تک پاکستانی کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
سابق اسٹارز پرمشتمل بھاری بھرکم مینجمنٹ کے باہمی اختلافات کا خطرہ ہونے کے سوال پر راشد لطیف نے کہا کہ بڑی مشکل سے کوئی ٹور آہا ہے، یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ کھیلے ہوئے یا کام کر چکے ہیں، نوکری تو کرنا پڑتی ہے، امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، مصباح الحق اور یونس خان کی جوڑی بیٹنگ میں قومی ٹیم کے لیے پرفارم کرتی رہی ہے، ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر کے رویے میں بھی لچک ہے،وہ دروازے بند نہیں کرتے،دونوں کی بیٹنگ کی طرح کوچنگ میں بھی اچھی شراکت پاکستان کرکٹ کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد میرے خیال میں ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے پہلا جبکہ ٹیسٹ کرکٹ میں محمد رضوان کے بعد دوسرا انتخاب ہوں گے، مشکل صورتحال ہے کہ پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنے اور چیمپئنز ٹرافی جیتنے والا کپتان اب بینچ پر بیٹھا ہوگا، مگر سرفراز احمد فائٹ کرے گا، میرے خیال میں اگر وکٹ کیپر بیٹسمین ٹی ٹوئنٹی سیریز سے قبل جاتے تو اچھا ہوتا لیکن شاید چارٹرڈ طیارے کی وجہ سے روانہ ہونا پڑے گا۔
احسان مانی کو آئی سی سی کا چیئرمین بننے کی پیشکش کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میرے لیے اس میں دلچسپی کی کوئی بات نہیں کہ وہ ایشین کرکٹ کونسل یا آئی سی سی میں جائیں، ان کے آنے سے پی سی بی میں تو کوئی فرق نہیں پڑا، ٹائی لگاکر گھومنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
ایک سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ چیف ایگزیکٹیو وسیم خان میں انرجی تو نظر آتی ہے لیکن مزاج میں ٹھہراﺅنہیں ہے، میڈیا میں کوئی ذرا سی بات کر دے تو ان کی جانب سے بہت جلد ردعمل آ جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں فلاں سے بات نہیں کروں گا، میرے خیال میں کوئی مخالفت کرے تو اس سے زیادہ بات کرنا چاہیے، دشمن کم سے کم رکھنا چاہیے،وسیم کا کام بھی اعلیٰ سطح پر ہی نظر آرہا ہے، کلب اور ایسوسی ایشن کے لیول پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، آئین بناتے بھی پی سی بی کو 2 سال ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ساری باتیں فضول اصل چیز یہ ہے کہ کرکٹ ہونی چاہیے، گراس روٹ لیول پر کام ضروری ہے لیکن یہاں تو ٹورنامنٹ کے لیے بھی اجازت درکار ہوتی ہے، برٹش راج والی بات ہے، کرکٹ ہوتی نہیں، اسی لیے انڈر19 سے پی ایس ایل میں آکر کھلاڑی پاکستان کے لیے بھی کھیل جاتے ہیں، میں خود گراس روٹ لیول سے سخت مقابلے کے بعد مدارج طے کرتا ہوا قومی ٹیم میں آیا، میرے خیال میں کھلاڑیوں کو ایک سسٹم کے تحت جدوجہد کے بعد ہی پختہ کار ہوکر قومی اسکواڈ میں آنا چاہیے۔
انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی میں 5 سالہ پلان کا فائدہ نہیں
راشد لطیف کا کہنا ہے کہ انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی میں 5 سالہ پلان کا کوئی فائدہ نہیں، سابق کپتان کے مطابق کوئی عمارت پہلے سے موجود ہو تب ہی تزئین و آرائش کی جاتی ہے،پاکستان میں سکھر، لیہ، بہاولپور، ساہیوال، بورے والا اور اس طرح کے دیگر علاقے گھوم کر دیکھ لیں، کوئی انفرا اسٹرکچر اور سہولیات ہی موجود نہیں۔