وائرس اوررشتے

 قرآن مجید میں جگہ جگہ ذکر ہے کہ والدین کیساتھ احسان کیا کرو ‘ اسی طرح دوسرے رشتے مثلاً بہن بھائی‘چچا ماموں‘ خالہ کا بھی مقام متعین کیا گےا ہے‘ ان سب رشتوں میں اللہ تعالیٰ نے مٹھاس اور خوبصورتی سمادی ہے‘اسلامی معاشرے میں ان تمام رشتوں کو اعلیٰ اور برتر مقام حاصل ہے۔ اسی طرح بتدریج دوسرے رشتے آتے ہیں‘ البتہ یورپی معاشرے میں خاندان کا تصور بہت محدود ہو کر رہ گیا ہے جہاں میاں‘ بیوی اور بچوں کو خاندان تصور کیا جاتا ہے‘ یہ اسلئے بھی ہے کہ وہاں کے معاشرے کی بنیاد مادہ پرستی پر استوار ہے‘اس لئے دوسرے رشتوں کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہوتی جبکہ اسلامی معاشرہ میں متذکرہ بالا رشتوں کا تصور بہت گہرا اور مضبوط ہے۔جب سے کورونا وائرس کی وباءپھوٹی ہے ان تمام رشتوں کو نظر لگ گئی ہے۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ بہن بھائیوں کی آپس میں میل ملاپ اور ایک دوسرے کی خبر گیری مذہبی فریضے کے طور پر کی جاتی تھی۔ کوئی بیمار پڑ جاتا تو تمام بہن بھائی‘ رشتہ دار اور دوسرے احباب مریض کے گھر تیمارداری کیلئے اکھٹے ہوتے تھے‘ یہاں تک کہ آج سے تقریباً پانچ دھائی پہلے جب دیہات میں مریض کو ہسپتال لے جانے کیلئے چارپائی پر لے جانا ہوتا تھا تو ہر کوئی اسے اٹھانے کیلئے دوڑتاآتا تھا اور یہ بات اپنے لئے باعث فخرسمجھتا تھا‘مریض کی خدمت میں سکون محسوس کےاجاتاتھا۔

اس موذی مرض نے ایک دوسرے کو اس قدر دور کیا کہ بھائی بھائی کو کئی ہفتے دیکھ نہیں سکتا اور اگر کہیں راستے میں مارکیٹ آتے جاتے ملاقات ہو بھی جاتی ہے تو ہاتھ ملانے سے گرےزکیاجاتاہے‘ وہ آپس کی محفلیں اور کھانوں کا اہتمام اب قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے ‘خوف اور ڈر کا سایہ اس قدر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ قریبی رشتہ دار بھی کورونا مریض کے پاس نہیں جاتے اور تو اور مرنے والے کے ماں باپ‘ بہن بھائی بھی گھبراتے ہیں‘ اس خوف میں مزید اضافہ ایس او پیزنے کر دیا ہے‘پچھلے دنوں اخبارات میں خبر آئی تھی کہ کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں کورونا سے مرنےوالے ایک مریض کے گھر والوں کو جب اطلاع دی گئی تو وہ گھرکو تالا لگا کر غائب ہو گئے‘ مجبوراً ہسپتال انتظامیہ نے اسکی تدفین کا بندوست کیا‘ویسے بھی ایس او پیز کے مطابق ہسپتال انتظامیہ اور بہت قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی دوسرے کو جنازے مےںشرکت کی اجازت نہیں دی جاتی‘ ان حالات کو دیکھ کر کورونا سے مرنےوالے کے قریبی رشتہ داروں کا بھاگنا اور جگہ چھوڑنا فطری بات ہے‘ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے اسے اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ دنیا میں ایک خاص شیطانی قوت ایسی ہے جو انسان کو انسان سے دور کرکے اور جان سے مار ڈالنے کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکمرانی یا نظام قائم کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہی قوتیں جنگوں کو اپنے لئے بھی خطرہ تصور کرتی ہیں اور اسی لئے حیاتیاتی یعنی بائیولوجیکل جنگ کو محفوظ سمجھتی ہیں‘ یہ بھی عین ممکن ہے کہ جن قوتوں نے یہ حربہ استعمال کیا ہے انہوں نے اسکا توڑ بھی بنایا ہو اور جب تباہی ان کی طرف بڑھنے لگے تو وہ اس توڑ کو اپنے لئے استعمال کریں گی‘ اس طرح وہ دنیاکی واحد قوت رہ جائے گی جو حکمرانی کرتی رہے گی۔

پشاور شہر کے اندر رمضان المبارک میں شہری سحری تک قصہ خوانی اور خیبر بازار میں تھڑوں پر بیٹھ کر قہوے سے لطف اندوز ہوتے تھے‘ اگرچہ ماضی کی وہ روایتیں ماند پڑ گئیں لیکن اس رمضان میں تو یہ روایت بالکل ہی ختم ہو گئی‘ عیدالفطر میں دوست احباب ایک دوسرے کے ہاں محفلوں میں جاتے تھے ‘مٹھائی یا چاول لے جا کر خوشی میں شریک ہوا کرتے تھے مگر افسوس کہ اس بار وہ خوشیوں کی محفلےں کورونا وائرس کی وباءکی وجہ سے نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھےں۔ اگلے ماہ عید قربان ہو گی مگر سرکاری طور پر اعلان ہوا ہے کہ یہ وباءجولائی کے آخری دو ہفتوں میں عروج کو پہنچے گی جس کی وجہ سے یقینا خوف کی فضاءبڑھے گی اور یہ عید بھی عوام کو قربان کرنا پڑے گی‘اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ ان سارے حالات کا دارومدار عوام کے احتیاطی تدابیر اپنانے پرہے‘ اگر حکومت اور میڈیکل ماہرین کی بتائی ہوئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو نہ صرف عوام کی مشکلات پر قابو پایا جا سکے گا بلکہ ماضی کی طرح تمام خوشیاں اور رونقیں واپس لوٹ آئیں گی‘ چونکہ اس وباءکی ابھی تک کوئی دوا یا ویکسین ایجاد نہیں کی گئی ہے‘ اسلئے احتیاط اور صرف احتیاط سے ہی اس سے بچا جا سکتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اٹلی جہاں کورونانے تباہی مچا رکھی تھی اور ہزاروں کے حساب سے اموات واقع ہوئےں کے ڈاکٹروں نے ڈبلیو ایچ او کے بتائے ہوئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مرنے والے مریض کا پوسٹ مارٹم کرایا جس سے پتہ چلا کہ کورونا وائرس نہیں بلکہ بیکٹیریا ہے جو خون گاڑھا کر دیتا ہے اور دل کو خون کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور مریض مر جاتا ہے۔ انہوں نے خون کو پتلا کرنے کیلئے کورونا وائرس کے مریض کو اسپرین کے استعمال کا مشورہ دینا شروع کیا۔ چونکہ اس پر ابھی مزید تحقیق نہیں ہوئی ہے اسلئے اسے آخری دوا نہیں سمجھا جاتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بیماری نے نہ صرف رشتوں میں دراڑیں ڈالی ہیں بلکہ ہمارے مذہبی فریضوں کی ادائیگی میں بھی خلل ڈالا ہے۔