ہاتھ کے اشاروں کی ترجمانی کرنے والا دستانہ ایجاد کرلیا گیا ہے جو آسانی کے ساتھ سماعت سے محروم افراد کی بات سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔
دستانے کی چاروں انگلیوں اور انگوٹھوں کے خانوں میں سینسرز لگائے گئے ہیں جن کی مدد سے امریکن سائن لینگوئج میں اشاروں سے ادا کیے گئے لفظ، فقرے یا حروف کی ترجمانی ممکن ہوگی۔ اشارے سے کسی لفظ یا فقرے کی ادائیگی کے بعد سینسرز کے ذریعے پیغام اسمارٹ فون تک فی سیکنڈ ایک لفظ کی رفتار سے منتقل ہوگا۔ منتقلی کے بعد فون سے آواز کے طورپر متعلقہ لفظ یا جملے کی ادائیگی ہوجائے گی۔
یہ دستانہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (یوسی ایل اے) کے سائنس دانوں نے بنایا ہے۔ اس کا مقصد سماعت سے محروم افراد کو اظہار و ابلاغ میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے کے نگران محقق جن چین کا کہنا ہے کہ امید ہے اس کے ذریعے اشاروں کی زبان استعمال کرنے والوں کو اپنی بات اس زبان سے ناواقف افراد تک پہنچانے میں آسانی میسر آئے گی۔ علاوہ ازیں اس دستانے کی مدد سے بہ آسانی اشاروں کی زبان سیکھنے میں مدد ملے گی۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس آلے کی آزمائش کےلیے اس میں ایسے انتہائی حساس سینسر بھی استعمال کیے گئے ہیں جو بھنوؤں اور منہ کے دہانے کی جنبش سے ظاہر ہونے والے تاثرات کی مدد سے بھی امریکی سائن لینگوئج کے اشاروں سے لفظ اخذ کریں گے۔
امریکا میں تقریباً دس لاکھ لوگ امریکن سائن لینگوئج استعمال کرتے ہیں جب کہ انگریزی بولنے والے ممالک میں اشاروں کی زبان کےلیے برطانوی طریقہ زیادہ رائج ہے۔ قوت سماعت سے محروم دنیا کے 7 کروڑ افراد اشاروں کی 300 سے زائد زبانیں استعمال کرتے ہیں تاہم یہ دستانہ صرف امریکن سائن لینگوئج ہی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ مستقبل میں اسے دیگر زبانوں کےلیے بھی قابل استعمال بنا لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے طالب علم آج سے 15 سال پہلے اسی طرح کا ایک دستانہ ’’بولتے ہاتھ‘‘ کے نام سے بنا چکے ہیں جسے کسی حد تک پذیرائی تو حاصل ہوئی لیکن یہ منصوبہ فائنل ایئر پروجیکٹ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔