حیات آبادماضی کے دریچوں سے

آج سے اٹھاون ساٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ پشاور صدر سے دس کلومیٹر اور پشاور یونیورسٹی سے تین کلومیٹر مغرب کی طرف خیبر ایجنسی کی حدود شروع ہوتی تھیں اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اکیلے ان حدود کو پار کرکے ایجنسی میں داخل ہوتا اور اگر کوئی ایسا کرتا تو اپنی ذمہ داری پر، کیونکہ آئے دن اغوا کی وارداتیں ہوتیں۔ اغوا شدگان کی برآمدگی کیلئے متاثرین کو بھاری رقوم دینا پڑتی تھیں۔ اسلامیہ کالج سے کچھ ہی فاصلے پر کسٹمز چیک پوسٹ ہوا کرتا تھا جہاں سے آگے طلباءکو جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ کبھی کبھی یونیورسٹی یا اسلامیہ کالج کے طلباءآپس میں ملکر فلم کی آخری شو دیکھنے کیلئے پشاور صدر یا شہر آجاتے تھے تو واپسی بہت مشکل ہوتی تھی۔ گورا قبرستان کے قریب چیک پوسٹ پر مامور پولیس والے منت سماجت کے بعد تانگے والے کو اندر جانے کی اجازت دیتے تھے۔ چونکہ ہاسٹل کا گیٹ بھی رات کو متعین وقت پر بند ہو جایا کرتا تھا اسلئے ہاسٹل میں داخل ہونے کیلئے چھت پر چڑھ کر سیڑھیوں سے نیچے آنا پڑتا تھا۔پشاور شہر اور صدر سے پندرہ بیس کلومیٹر مغرب کی طرف کسی شہر کا آباد ہونا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ 1970کے بعد جب پشاور شہر کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھنے لگی تو حکومت اور عوام کو بھی اس بات کا احساس بڑی تیزی سے ہونے لگا کہ اگر اس بڑھتی ہوئی آبادی کو کھپانے کیلئے بندوبست نہ کیا گیا تو ایک وقت آئیگا کہ صدر اور شہر میں ایک کمرے کا مکان اول تو ملنا محال ہو جائیگا اور اگر ملے بھی تو چالیس پچاس ہزار روپیہ سے کم میںنہیں ملے گا۔صوبے کے ٹاو¿ن پلاننگ کے محکمے کو یہ کام حوالے کیا گیا کہ کوئی ایسی جگہ تلاش کی جائے جہاں پر کم آمدنی والے لوگوں کے لئے رہائشی کالونی بنائی جاسکے۔

1972ءمیں اسوقت کے گورنر حیات محمد خان شیرپاو¿ نے اس قسم کے منصوبے کی نشاندہی اور اسکی تکمیل میں دلچسپی لی مگر اپنے منصوبے کی نشاندہی اور تکمیل سے پہلے ہی اسے شہید کر دیا گیا البتہ 1976ءمیں ٹاو¿ن پلاننگ کے محکمے نے موجودہ حیات آباد کی نشاندہی کر دی اور اسکی بنیاد ڈالی گئی۔ اسکے بعد 1978ء میں پی ڈی اے کے نام سے ایک نیا محکمہ ایک آرڈیننس کے ذریعے وجود میں لایا گیا اور حیات آباد کا سارا انتظام اسکے حوالے کیا گیا۔ البتہ کم آمدنی والوں کیلئے رہائشی کالونی کا تصور ختم کر دیا گیا کیونکہ اس منصوبے میں دو کنال، ایک کنال، دس مرلہ، پانچ مرلہ اور تین مرلہ کے پلاٹ بنائے گئے۔اس منصوبے میں کل 22508 پلاٹ مختص کیے گئے تھے۔ یہ منصوبہ سات فیزوں پر مشتمل ہے جسمیں فیز 5 سرکاری ملازمین کی رہائش اور سرکاری دفاتر پر مشتمل ہے۔ ہر فیز میں ایک کمرشل ایریا اور ہر سیکٹر میں مارکیٹ اور مسجد ہے۔ کل 62 سیکٹروں میں ایک ایک پارک کیلئے جگہیں مختص ہیں۔ پورے حیات آباد میں ایک سپورٹس کمپلیکس ہے البتہ کمیونٹی سنٹر کیلئے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔ جو کمیونٹی سنٹر کے نام سے جگہ ہے وہاں شادی ہال بنا گیا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کیلئے کوئی پلے گراﺅنڈ نہیں ہے جہاں فارغ اوقات میں بچے جاکر کھیل سکیں اور مجبوراً بچے سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے ہیں، جسکی وجہ سے آئے روز گاڑیوں والوں کے شیشے ٹوٹتے رہتے ہیں اور لڑائی جھگڑوں تک نوبت آتی ہے۔ شہر کو پرسکون اور امن کا گہوارہ بنانے کیلئے " سیف سِٹی " کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا مگر شاید ادارہ نام کی حد تک ہی موجود ہے کیونکہ آئے روز یہاں پر چوریوں اور ڈاکوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف پولیس خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے تو دوسری جانب پی ڈی اے حکام بھی بے بس نظر آرہے ہیں کیونکہ انکے اعلیٰ حکام کے علم میں یہ بات لائی گئی تھی کہ حیات آباد کو محفوظ بنانے کیلئے بنائی گئی حفاظتی دیوار بعض مقامات پر اسقدر چھوٹی ہے کہ پیچھے سے کوئی بھی باآسانی حیات آباد میں داخل ہوکر کچھ بھی کر سکتا ہے۔

 دوسری طرف یہاں پر اب جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ کر نشئی افراد اپنی دنیا میں گم نظر آتے ہیں، ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں کباڑیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہے جو ایک طرف رہائشیوں کے آرام میں خللکا باعث ہیں تو دوسری طرف علاقے کے غیر محفوظ ہونے کا بھی احتمال ہے۔ ایک خطیر رقم خرچ کرکے سیکورٹی گارڈز کیلئے پک اپ گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں خریدی گئی تھی مگر اب ان کا نام و نشان تک نہیں۔ مارکیٹوں میں نرخوں پر کوئی چیک نہیں، حیات آباد میں نرخ اسلام آباد سے زیادہ ہیں۔ فیز 3 میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی لیکن وہ بھی بی آر ٹی کی نذر ہو گئی۔ بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ اپنی نرسری موجود ہونے کے باوجود ہر سال پرائیویٹ نرسریوں سے پودے خریدے جاتے ہیں۔ اس جدید بستی میں گھروں کو پانی کی سپلائی کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے اسلئے کہ بعض رہائشیوں نے گھروں کے اندر اضافی پانی کھینچنے کیلئے واٹر پمپ لگائے ہوتے ہیں جسکی وجہ سے دوسروں کو کم پانی ملتا رہتا ہے۔ا س طرح آوارہ کتوں کی ایک فوج تمام گلیوں میں ہمہ وقت آزادی سے پھرتی رہتی ہے جس سے کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ سٹریٹ لائٹس اورحفاظتی دیوار کیساتھ لگے ہوئے " فلڈ لائٹس" کئی کئی دن بار بار ٹیلی فون پر اطلاع کے باوجود ٹھیک نہیں کرائے جاتے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جسے پشاور کی جدید بستی کا نام دیا گیا ہے یہاں پر بے پناہ مسائل سے اب مکینوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے اور اب تو نوبت یہاںتک آپہنچی ہے کہ بعض لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔