ایک عام جہاز سے لندن سے نیویارک کا سفر لگ بھگ 7 گھنٹے میں طے ہوتا ہے جو کہ زبردست پیشرفت ہے کیونکہ بحری جہازوں سے اس سفر کو طے کرنے میں کئی ہفتے بلکہ مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔
مگر تصور کریں ایسے طیارے کا جو لگ بھگ ساڑھے تین ہزار میل کا یہ سفر محض ساڑھے تین گھنٹے میں طے کرلے؟
جی ہاں ایسے سپر سانک طیارے جلد فضاﺅں میں پرواز بھرتے نظر آئیں گے ، جو اتنا طویل سفر بہت جلد طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا یعنی کراچی سے لندن کا طویل سفر بھی تین گھنٹوں میں ممکن ہوسکے گا
یہ طیارہ بوم نامی کمپنی تیار کررہی ہے اور اسے دنیا کا تیز ترین سول ائیرکرافٹ قرار دیا گیا ہے۔
اس طیارے کے چھوٹے ورژن بوم ایکس بی 1 کی آزمائش آئندہ سال کسی وقت ہوگی اور بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ لندن سے نیویارک کا سفر ساڑھے تین گھنٹے سے بھی پہلے طے ہوسکے گا۔
کمرشل پروازوں کے لیے یہ طیارہ اگلی ایک دہائی کے دوران فضا میں پرواز کرتا نظر آئے گا جو 1700 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کرے گا جبکہ اس کا پروٹوٹائپ 2021 میں آزمائشی پرواز کا حصہ بنے گا۔
آسان الفاظ میں لاہور اور کراچی کے درمیان اس کی پرواز آدھے گھنٹے سے بھی پہلے مسافروں کو منزلوں تک پہنچانے کے لیے کافی ہوگی۔
امریکی کمپنی کی جانب سے اس طیارے کے جس ڈیزائن پر کام کیا جارہا ہے جو کنکورڈیا سے کافی حد تک ملتا جلتا ہے۔
یہ 60 سے 70 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرسکے گا جس میں مسافروں کے لیے پرتعیش سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
اس کمپنی میں جاپان ایئرلائنز اور ورجین گروپ نے سرمایہ کاری کی ہے اور دونوں کمپنیوں نے ابھی سے مجموعی طور پر 30 طیاروں کے آرڈر بھی دے دیئے ہیں۔
اس کے کمرشل ورژن کو اوور ٹرو کا نام دیا جائے گا جبکہ پروٹوٹائپ قسم کو ایکس بی 1 کہا جائے گا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ باضابطہ طور پر ایک بی 1 کو 7 اکتوبر 2020 کو متعارف کرایا جائے گا اور 2021 میں اڑان بھرے گا۔
ایکس بی 1 بنیادی طور پر ایک مسافر طیارہ نہیں بلکہ یہ کسی جنگی طیارے جیسا ہوگا جس میں ایک پائلٹ کی ہی گنجائش ہوگی۔
حجم میں بھی یہ اوور ٹرو سے بہت چھوٹا ہوگا اور اس کا مقصد بڑے طیارے پر استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجیز کی آزمائش کرنا ہے۔
کمپنی نے بتایا کہ ایکس بی 1 سے ہم دکھائیں گے کہ کس طرح سپرسانک طیاروں کو واپس لانے کی تیاری کی جارہی ہے، ہم سپرسانک طیاروں کا مستقبل محفوظ جبکہ ماحولیاتی اور اقتصادی طور پر مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔
اگر یہ پروٹوٹائپ طیارہ کامیاب رہا تو پھر اوور ٹرو پر کام شروع ہوگا جس کی آزمائش 2020 کی دہائی کے وسط میں ہوگی جبکہ 2030 تک مسافروں کے لیے اڑان بھرے گا۔