پی آئی اے کا عروج وزوال

پی آئی اے کے عروج و زوال کی داستان بہت طویل ہے‘ ایک وقت تھا جب اس سرکاری ادارے کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا تھا جسکو بام عروج پر پہنچانے کا سہرا ائیر مارشل نور خان کے سر ہے جو 1960ءکی دہائی میں اس کے چیئرمین رہے‘ ائیر مارشل نور خان 1959ءسے 1965ءتک ائیر فورس میں ہونے کےساتھ ساتھ پی آئی اے کے ایم ڈی بھی رہے‘ یہ پی آئی اے کا ”سنہرا باب“ تھا جسکی بڑی وجہ نور خان صاحب کی انتھک محنت تھی جبکہ دوسری وجہ اس دور میں کرپشن کی کمی تھی‘ نور خان کو جب 1973ءمیں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دوبارہ ایم ڈی پی آئی اے منتخب کیا تو تھوڑے عرصے بعد اسکے استعفیٰ کیوجہ محفوظ مصطفیٰ بھٹو بنا جو ممتاز بھٹو کا بیٹا اور ذوالفقار علی بھٹو کا بھانجا تھا۔ محفوظ مصطفیٰ بھٹو کو تعلیمی اہلیت کی کمی کے باوجود سفارش پر پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر لگایا گیا تھا اور جو کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتا تھا۔ انہیں کئی وارننگ لیٹرز جاری ہونے کے بعد جب بات ائیر مارشل نور خان تک پہنچی تو اسنے محفوظ مصطفیٰ بھٹو کو ائیر لائن سے نکالنے کا لیٹر جاری کیا‘ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نور خان کو میٹنگ کے بہانے لاڑکانہ بلایا اور میٹنگ کے خاتمے پر کہا، ائیر مارشل، بھٹو، بھٹو ہی ہوتا ہے ‘ نور خان محفوظ مصطفیٰ بھٹو کے متعلق پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو کا اشارہ سمجھ گیا اور کراچی اپنے آفس پہنچتے ہی اپنا استعفیٰ وزیراعظم ہاو¿س اسلام آباد فیکس کر دیا‘ یہی سے پی آئی اے کا زوال شروع ہوا‘ اسکے بعد جنرل ضیاءالحق کے دور میں پی آئی اے کے چیئرمین ائیر مارشل وقار عظیم کی کرپشن کی داستان زبان زدعام ہوئی، جسکی وجہ سے اسے کچھ عرصہ جیل بھی جانا پڑا۔گرچہ اسکے زوال کے پیچھے اصل محرکات میں پچھلی حکومتوں کے سیاسی و غیر سیاسی لوگ اور کرپٹ بیوروکریسی شامل ہیں لیکن موجودہ دور میں بھی اسکے بچاو¿ کیلئے کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔پی آئی اے کے زوال کی انتہاکا اندازہ اس وقت ہو گیا جب 22 مئی 2020 کو لاہور سے کراچی جاتے ہوئے ایک اندرون ملک فلائٹ کراچی کے رہائشی علاقے میں گر گئی، جسمیں 91 مسافر اور 8افراد پر مشتمل جہاز کا عملہ سوار تھا۔

 اس حادثہ میں 97 افراد جاں بحق ہوگئے اور کئی رہائشی مکانات تباہ ہوئے‘ اس پر ہماری میڈیا اور عوام میں کہرام مچ گیا، حادثے کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن کی تشکیل ہوئی‘ شروع شروع میں وزیر ہوا بازی (سول ایوی ایشن) غلام سرور خان نے میڈیا کو بتایا کہ یہ حادثہ پائلٹوں کی غفلت کیوجہ سے پیش آیا اور کہا کہ فلائٹ کے دوران دونوں پائلٹ آخری وقت تک کورونا وائرس پر بحث کرتے رہے‘ اس واقعے کے متعلق بعد ازاں اسی وزیر نے قومی اسمبلی میں رپورٹ پیش کرکے نتائج کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسا خوفناک ڈائنامائٹ چلا دیا جس نے پی آئی اے کی گرتی ہوئی ساکھ کو زمین بوس کر دیا اس نے اسمبلی فلور پر کہا کہ پی آئی اے میں سینکڑوں پائلٹس جعلی ڈگریوں اور لائسنسوں پر کام کر رہے ہیں‘ اس خبر کو پوری دنیا کے میڈیا ہاو¿سز نے ہیڈلائنز اور بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا، نتیجتاً امریکہ، ویت نام، ملائیشیا اور عرب ممالک نے فوری طور پر ہمارے پائلٹس گراو¿نڈ کر دئیے جبکہ یورپی یونین نے ایک قدم آگے بڑھ کر چھ مہینے کیلئے پی آئی اے کی فلائٹس پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ یورپی یونین ایوی ایشن اتھارٹی (EASA) نے اپنے 32 رکن ممالک کو سختی سے تاکید کی ہے کہ جلد از جلد پاکستانی پائلٹوں کو گراو¿نڈ کیا جائے جبکہ اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ فی الحال کسی پاکستانی پائلٹ کو کام نہ کرنے دیا جائے‘ امریکہ نے بھی پی آئی اے کے فلائٹس پر مکمل پابندی لگا دی۔ قومی ائرلائن جو پہلے سے شدید مالی خسارے سے دوچارتھی، پائلٹوں کے اس مسئلے نے اسکو بالکل ہی دیوالیہ کر دیا‘ہماری وفاقی کابینہ نے 28 پائلٹوں کو برطرف جبکہ 34 کو معطل کرنے کی منظوری دے دی ہے اور باقی کیخلاف تحقیقات ہو رہی ہیں۔

 گرچہ غلام سرور کی بات میں وزن ہو سکتا ہے لیکن پی آئی اے کراچی فلائٹ سانحے پر قومی پریشر آنے کے بعد صرف جعلی پائلٹوں کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا کیونکہ اپوزیشن کے بیانیے کے مطابق اسکے ذریعے مینجمنٹ اور ان ذمہ داروں کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے‘ ان لوگوں نے اس ادارے کو رشوت خوری کرپشن، غلط بھرتیوں اور اقرباءپروری کے ذریعے اس حال تک پہنچایا ہے۔ پی آئی اے سٹاف کی پوری فیملیز پوری دنیا کی مفت سیر کرتی رہی ہیں اور کچھ کے بارے میں سمگلنگ کی شکایات بھی آتی رہی ہیں۔ اسکے علاوہ اسکی مینجمنٹ اور متعلقہ سیاسی شخصیات بھی اسکے فنڈز کی خورد برد میں ملوث رہی ہیں‘جب دسمبر 2016 میں چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے پی آئی اے کا جہاز اُڑان کے بعد ہی گر گیا تو اس پر بھی اسی طرح کی انکوائری کمیٹی وجود میں لائی گئی‘ اس حادثے میں جنید جمشید اور درجنوں مسافر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ انکوائری کمیٹی کی اس سانحے پر تحقیق سے پتہ چلا کہ خرابی جہاز میں تھی جسکی صحیح مینٹیننس نہیں ہوئی تھی‘ رپورٹ میں اصل ذمہ داروں کی نشاندہی نہیں کی گئی اور اسطرح یہ کیس بھی بند ہو گیا‘ جہازوں کی ناقص مرمت اور ٹیکنالوجی کی جدیدیت کا نہ ہونا حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

پی آئی اے ادارے کی تباہ کاری میں اوپر بیان کی گئی ساری وجوہات کے علاوہ ایک بڑی اور اصل وجہ ہمارے ملک میں موجود ” اِکنَامِک ہِٹ مین “ ہیں جو آئی ایم ایف کی جانب سے ہم پر بیوروکریٹس اور حکمرانوں کی شکل میں مسلط کیے گئے ہیں اور جنکا ہدف ہر سرکاری ادارے کو گرانا ہے تاکہ اسکی نجکاری آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہو سکے اور اس طرح پورا ملک گروی رکھ دیا جائے‘ اللہ نہ کرے ایسا ہو‘ یوٹیوب چینل پر آپ اس کے متعلق جَان پَرکِنز کی ویڈیو ””َنفِیشَن آف این اِکنَامِک ہِٹ مین“ کے نام سے ملاحظہ کر سکتے ہیں جس میں معاشی دہشتگرد جان پَرکِنز خود بتاتا ہے کہ وہ کس طرح آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر مختلف ممالک میں سربراہان مملکت سے اپنی مرضی کے مطابق معاشی فیصلے کرواتا تھا اور انکار یا ناکامی کی صورت میں امریکی ”جے کالز“ یعنی بلیک واٹر یا ریمنڈ ڈیوس قسم کے لوگ انہیں قتل کر دیتے تھے۔