برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چٹانوں اور پتھروں کا سفوف (پاؤڈر) بنا کر فصلوں پر چھڑک دیا جائے تو وہ فصلیں ہوا سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے قابل ہوجائیں گی۔
انہوں نے یہاں تک اندازہ لگایا ہے کہ اگر یہ ترکیب ساری دنیا میں اُگنے والی فصلوں پر آزمائی جائے تو اس سے ہر سال تقریباً دو ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ، زمینی فضاؤں سے کم کی جاسکے گی۔
یہ تکنیک اپنے آپ میں بہت سادہ اور قدرتی طریقے سے ملتی جلتی ہے کیونکہ چٹانوں اور پتھروں میں ایسی معدنیات پائی جاتی ہیں جو بارش کے پانی سے مل کر، ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ کیمیائی عمل کرتی ہیں اور اسے بے ضرر مرکبات میں تبدیل کردیتی ہیں۔
چٹانوں کی سطح سے یہ ذرّات الگ ہوتے ہیں اور بارش کے پانی کے ساتھ بہتے ہوئے ندی نالوں میں، اور بالآخر دریاؤں کے راستے سمندر میں پہنچ کر تہہ نشین ہوجاتے ہیں۔ یہ قدرتی عمل ’’راک ویدرنگ‘‘ یعنی چٹانوں کی موسم بردگی کہلاتا ہے۔ یہی وہ قدرتی طریقہ بھی ہے کہ جس کے ذریعے چٹانیں بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم ہوجاتی ہیں۔
اسی مناسبت سے چٹانوں کے سفوف کو فصلوں پر بکھیرنے کے مصنوعی عمل کو ’’اینہانسڈ راک ویدرنگ‘‘ یا ’’چٹانوں کی تیز رفتار موسم بردگی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ البتہ ابھی اس کی عملی افادیت کا تعین کرنا باقی ہے۔
زمینی ماحول میں تبدیلی لانے کی بڑے پیمانے کی ایسی کوششوں کو ’’جیو انجینئرنگ‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے جس کے تحت اب تک متعدد منصوبے تجویز کیے جاچکے ہیں۔ تاہم ایسے ہر منصوبے کی لاگت اربوں بلکہ کھربوں ڈالر میں ہوگی جس کے اخراجات برداشت کرنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔
واضح رہے کہ انسان اپنی گھریلو، صنعتی، تجارتی، معاشی اور دوسری سرگرمیوں کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 35 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کررہا ہے جس میں سے 33 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ توانائی پیدا کرنے والے ذرائع (بجلی گھروں وغیرہ) سے فضا میں شامل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ماحول کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔
چٹانوں کا سفوف پوری دنیا کی فصلوں پر پھیلانے کا یہ منصوبہ، جو فی الحال ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ میں شائع شدہ ایک تحقیقی مقالے کی شکل میں ہے، بلاشبہ جیو انجینئرنگ کے مہنگے منصوبوں ہی میں شمار ہوگا لیکن ابھی ہم یہ نہیں جانتے کہ اس پر کتنی لاگت آئے گی اور اسے ساری دنیا کی فصلوں پر استعمال کرنے میں کتنے سال لگ سکتے ہیں۔