انسانی زندگی کی کتاب کو ظاہر کرنے والا ڈی این اے ( ڈی آکسی رائبو نیوکلیئک ایسڈ) کی مرغولہ دار سیڑھی والی (ڈبل ہیلکس) ساخت سے تو ہم سب واقف ہیں جس کے دو ڈانڈوں سے چار مختلف اساس (بیس) جڑی ہوتی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پہلی مرتبہ ایک صحتمند شخص کے خلیے میں ایسا ڈی این اے دیکھا گیا ہے جس میں دو کی بجائے چار لڑیاں یا سرے موجود ہیں۔
اس سے قبل تجربہ گاہوں میں تھوڑی دیر کے لیے ایسے چار لڑیوں والے ڈی این اے بنائے جاچکے ہیں اور کینسر کے کچھ مریضوں میں بھی ایسا ہی بگڑا ہوا ڈی این اے دیکھا گیا ہےتھا لیکن بالکل تندرست شخص میں پہلی مرتبہ اس کا مشاہدہ ہوا ہے۔
لندن میں واقع امپیریئل کالج کے سائنسدان، مارکو ڈی اینتونیو نے کہا، ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے چار لڑی والا ڈی این اے دیکھا ہے جس کے بعد ہمیں ڈی این اے کی حیاتیات کے بارے میں بالکل نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ ‘
ڈی این اے چار نیوکلیائی اساس (نیوکلیو بیس) پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ان کے نام ایڈینین، سائٹوسین، گوانین، اور تھائی مین ہیں جنہیں اے ، سی، جی اور ٹی کے مختصر الفاظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ چاروں اساس مختلف ترتیب میں جڑتے ہیں ۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف گوانین ہی کے چار سالمے باہم مل کر ایک چوکور ساخت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ واحد اساس ہوئی جو اپنے آپ سے جڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹر اینتونیو نے اس پر کچھ کام جامعہ کیمبرج میں بھی کیا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے ایک نئی قسم کی روشن ہونے والی روشنائی استعمال کی تاکہ انسانی بافت (ٹشو) میں چار لڑی ڈی این اے کو ٹھیک سے دیکھا جاسکے۔ اس دریافت کے بعد اینتونیو کا خیال ہے کہ ہمیں جینیاتی معلومات کی تشکیل اور اس کی اشاعت کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ڈی این اے کیسے کام کرتا ہے لیکن ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ خلیاتی ہدایات کب اور کس جگہ روبہ عمل ہوتی ہیں؟ وہ کتنے جین کی متحرک کرتی ہے اور کتنے پروٹین بناتی ہے؟
لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر چار لڑی والا ڈی این اے کس کام کا ہے؟ اس پر سائنسدان کہتے ہیں کہ شاید یہ عجیب الخلقت ڈی این اے سالمات (مالیکیول) کو کھولنے اور جینیاتی معلومات پڑھنےمیں مدد دیتا ہے جس کے بعد نتیجتاً پروٹین بنتے ہیں۔ شاید یہ ڈی این اے ، بننے والے پروٹین کی تعداد کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
عموماً یہ عمل ایپی جنیٹکس مارکر کرتے ہیں۔ یہ ایسے کیمیکل ٹیگ ہوتے ہیں جو جینیاتی سرگرمی کو کم یا زیادہ کرتے ہں۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ چاردھاگوں والا ڈی این اے بھی یہی کچھ کررہا ہے۔
اس دریافت پر یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا کے سائنسداں زوئی والر نے کہا کہ دوہری ساخت کے روایتی ڈی این اے کے بارے میں ہماری معلومات اب پرانی ہوچکی ہے۔ اگرہم نئی ساخت کو نارمل تصور کرلیں تو یہ ڈی این اے کی تیزی سے بدلتی ہوئی ساخت کے متعلق ہماری معلومات میں ایک اور قیمتی اضافہ ثابت ہوگی۔