وہ کس کرب، تکلیف اور غم کی کیفیت میں مبتلا رہا ہو گا۔ اسکے دل و دماغ پر کیا گزری ہو گی جو اپنے پانچ بچوں کو ہنستا کھیلتا دیکھ کر جیتا ہو گا۔ اپنے بچوں کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانے کیلئے کتنے جتن کرتا ہو گا مگر بچوں کی خواہش پوری نہ کر سکنے پر ہمیشہ کیلئے انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی آنکھوں میں ایسا کیا دیکھا ہو گا جو اس سے برداشت نہ ہوا۔ کیا وہ ملکی سماج کا اکیلا شخص تھا جو اس کرب اور تکلیف سے گزر رہا تھا۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت اسی کیفیت میں مبتلا ہے۔ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ غربت اور مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔اسی کیفیت میں مبتلا کراچی کے لیاری علاقے میں رہائش پذیر سلطان گزشتہ جنوری کے ابتدائی دنوں میں جب دن بھر کی محنت مزدوری کے بعد شام کو گھر آیا تو بچوں نے پرزور انداز میں اپنے باپ سے سردیوں کیلئے نئے کپڑوں کا مطالبہ کر دیا۔ سلطان چونکہ ق±وت لا یموت کی زندگی گزار رہا تھا اسلئے اپنے بچوں کی خواہش پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ رات کو جب سارے بچے محو خواب تھے تو اس نے گھر میں لگے پرانے پنکھے کے ساتھ جھول کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ ایسے کئی سلطان اس معاشرے میں رہ رہے ہونگے مگر انکی ہمت نے ابھی تک جواب نہیں دیا ہو گا۔ابھی جولائی کی 13 تاریخ کو ننکانہ صاحب کے 35 سالہ فیاض اور اسکی 33 سالہ بیوی سلیم بی بی اور تین بچوں رابعہ، مسکان اور 15 ماہ کی انم نے گھر کے قریب دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا، اس قسم کے واقعات چند دن اخبارات کا پیٹ بھر دیتے ہیں مگر جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔مہنگائی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی وجہ سے ہر ملک کی معیشت دباو¿ اور انحطاط کا شکار ہو چکی ہے۔ عوام ڈر، لاک ڈاو¿ن اور دوسرے ایس او پیز (SOPs) کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ امریکی معیشت جو دنیا کی مضبوط ترین معیشت سمجھی جاتی ہے، بھی اس وباءکے اثرات سے محفوظ نہیں رہی۔
اسی طرح دوسرے ممالک جن میں چین، اٹلی، فرانس، سویڈن، جرمنی اور دوسرے یورپی، ایشیائی اور افریقی ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ چونکہ امریکہ، یورپ اور چین میں بیروزگاری کی حالت ہم سے کہیں بہتر ہے اسلئے ہمارے مقابلے میں انکی معیشت کافی اچھی ہے۔بعض ذمہ دار افراد کو اکثر ٹی وی مذاکروں میں یہ کہتے سنا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ہماری حالت ہندوستان سے کہیں بہتر ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ وقت ان باتوں کا نہیں بلکہ اپنے عوام کو اس موذی مرض سے بچانے کی ضرورت ہے اور اپنے عوام کو اس بات پر قائل کرنے کا وقت ہے کہ احتیاطی تدابیر اپنانے سے ہی اس وباءسے بچا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر ہم نے مقابلہ کرنا ہے تو معاشی میدان، سیاسی میدان، سائنسی میدان اور عسکری میدان میں کرنا ہے، کیونکہ آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت میں ترقی کا دور ہے۔ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت معیشت کی ابتری اور بیروزگاری کو ہر جانے والی حکومت پر ڈالتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ ملک وجود میں آنے کے بعد سے ہر دور میں جاری ہے۔ کوئی فوجی حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے تو کوئی سیاسی حکومتوں کو۔ کسی نے آج تک اپنی کمزوری اور کوتاہی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس حکومت کو مہنگائی اور بیمار معیشت ورثے میں ملی ہے۔ ملکی معیشت بیرونی و اندرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔وزیراعظم عمران خان انتخابات سے قبل اپنے انتخابی جلسوں اور جلوسوں میں قوم کو یہ باور کراتا رہا ہے کہ ہماری حکومت آتے ہی 90 دن کے اندر وہ اربوں ڈالرز کا سرمایہ جو بیرون ملک بینکوں میں پڑا ہے، واپس لائے گی جس سے نہ صرف قرضوں کا بوجھ کم کرینگے بلکہ معیشت کو بھی اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرینگے۔
مگر موجودہ حکومت کی بدقسمتی سمجھیں یا وہ قدرتی حالات جنکی وجہ سے ملکی معیشت میں بہتری نہیں آرہی۔ کورونا وباءنے ملکی معیشت پر اتنا دباو¿ ڈالا ہے کہ عمران خان جو ہمیشہ عوام کو یہ تسلی دیتا رہا ہے کہ انکی حکومت ملک کو آئی ایم ایف کے پنجے سے آزاد کرائیگی، اب ا±سی آئی ایم ایف کی شرائط پر مزید قرضے لینے پر مجبور ہے۔ تیل، چینی، آٹا اور ادویات کی قیمتوں میں چڑھاو¿ کا رحجان ان شرائط کا حصہ ہے۔ بیروزگاری اور غربت بڑھنے سے امن و امان کا خراب ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جب عام آدمی کے پاس کھانے پینے کی کیلئے کچھ نہیں ہوگا تو اسکے ذہن پر منفی خیالات کا قبضہ آسانی سے ہو گا۔ جب آدمی اہلخانہ کی ضروریات پوری نہیں کر سکے گا اور کھانے پینے کی اشیاءاسکی دسترس میں نہیں رہیںگی تو چھینا جھپٹی کے علاوہ اسکے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ ان حالات میں نوجوان طبقے کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آئے روز اخبارات میں چوری ڈاکوں کے واقعات کی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔ جب نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو گی تو حکومت کی کوئی بھی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اسلئے اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہونی چاہیے۔مرکزی بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مہنگائی کی صورتحال کے پیش نظر شرح سود میں ردوبدل کر دیا ہے۔ روپیہ کی قدر میں اضافے کا امکان محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ حکومت پر روپیہ کی قدر کم کرنے کا بہت بڑا دباو¿ ہے مگر حکومت نے روپیہ کی قدر یکدم کم کرنے کی بجائے ڈالر آہستہ آہستہ مہنگا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکے علاوہ جون 2020 کے آخری ہفتے سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا کرنے کا باعث بن رہا ہے جو پاکستان کے غریب اور متوسط طبقوں کیلئے باعثِ تشویش ہے۔البتہ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ حکومت نے شوگر اور دوسرے مافیا سے نمٹنے کا مصمم ارادہ کیا ہوا ہے۔ ان مافیا کو جب تک مکمل طور پر کنٹرول نہیں کیا جاتا تب تک عوام اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پستی رہیں گے۔