پختون جرنیل کالوخان

 یہ سال 2016ءکی بات ہے جب جماعت نہم کی انگریزی کتاب میں یوسفزئی قبیلے کے بہادر جرنیل کالو خان بابا کے خلاف ایک بہت ہی توہین آمیز مضمون چھاپ دیاگیا۔ مضمون میں کالو خان بابا کو ڈاکو اور لٹیرے کے الفاظ سےیا د کیا گیا تھا۔ جو اسکی شان، کردار اور اخلاق کے بالکل منافی تھا۔ یہ کتاب جب سرکاری سکولوں میں تقسیم ہوئی تو نہ صرف اخبارات بلکہ پختون اساتذہ اور دوسرے عمائدین، ادباء، شعراء، سیاستدانوں اور دانشوروں نے اسکا سخت نوٹس لیا اور احتجاج شروع کیا۔ایک کمیٹی بنائی گئی کہ پختونخوا ٹیکسٹ بورڈ اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرکے اسکا ازالہ کیا جائے۔ ان ملاقاتوں میں مجھے بھی شرف حاصل ہوا۔ اس سلسلے میں بورڈ کے چیئرمین اور محکمہ تعلیم کے صوبائی سیکرٹری سے ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں مسئلے کی نزاکت اور حساسیت سے آگاہ کرنے کیساتھ ساتھ کالو خان بابا کی حیثیت اور کارناموں سے آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کے دلائل سے افسران صاحبان مطمئن ہوئے اور متعلقہ کتاب سے مضمون کو نکال کر دوبارہ چھاپا گیا، البتہ انہوں نے مضمون کی جگہ دوسرا مضمون جسمیں نامور جرنیل کے کارناموں کا ذکر ہو، شامل نہیں کیا۔ اسی طرح حال ہی میں کراچی کی ایک مشہور پبلشنگ کمپنی "گابا ایجوکیشنل ب±ک" نے پرائیویٹ سکولوں کیلئے پانچویں جماعت کی انگریزی کتاب میں بونیر کے عوام سے متعلق ہتک آمیز مضمون شامل کرکے وہاں کے عوام کی دل شکنی کی ہے۔ جس پر نہ صرف بونیر کے عوام بلکہ پختونخوا کے تمام لوگوں میں ناراضگی اوربے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ اس قسم کے ہتک آمیز مضمون سکولوں کے نصاب میں شامل کرنا اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ اسکی بازگشت پختونخوا اسمبلی میں بھی سنی گئی ہے اور صوبائی حکومت نے اسکا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے۔

ملک کالو خان بابا 1529ءکو ضلع صوابی کے گاو¿ں کالو ڈھیر میں ملک علی خان رزڑ یوسفزئی کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ مغل بادشاہ اکبر کے ہم عصر تھے۔ ایک مدبر، زیرک اور غیرت مند پختون سیاستدان کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ اپنی بہادری اور شجاعت کے باعث اپنے قبیلے کے سردار چن لیے گئے۔ مغل بادشاہ اکبر کی یوسفزئی قبیلے سے پرانی دشمنی چلی آرہی تھی کیونکہ یوسفزئی قبیلہ مغلوں کو خراج نہیں دیتاتھا اور انکی حکمرانی نہیں مانتا تھااور اپنی سرزمین پر غیروں کے تسلط کیخلاف تھا، جسکا اکبر بادشاہ کو بڑا دکھ تھا انکی ہر ممکن کوشش تھی کہ یوسفزئی قبیلے کو شکست دیکر اپنا غلام بنا لے مگر یہ ارمان مغلوں کا ہر بادشاہ اپنے ساتھ قبر تک لے گیا۔سال 1580ءمیں یوسفزئی قبیلہ دو گروہوں میں بٹ گیا۔ ایک گروہ اخون درویزہ اور دوسرا پیر روخان کا حامی تھا۔ دونوں کے درمیان "ٹوپی" کے مقام پر خونریز جنگ ہوئی جسمیں ہزاروں افراد مارے گئے۔ ملک کالو خان بابا اس فرقہ وارانہ لڑائی میں غیر جانبدار رہے تاہم موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے خود کو زنجیروں میں جکڑ کر اکبر بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے جنہیں وہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ جاتے ہوئے کالو خان بابا نے غازی خان بابا کو اپنی جگہ یوسفزئی قبیلے کا سربراہ مقرر کیا اور اپنے قبیلے کو ہدایت کی کہ جب تم متحد ہو جاو¿ تو اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا۔ آپ لوگ بغاوت کرو گے تو اکبر بادشاہ مجھے جان سے مار ڈالے گا مگر میری جان کی پرواہ نہ کرنا۔

کالو خان بابا کی خوبصورت جوانی، عقلمندی اور مہذب انداز گفتگو سے اکبر بادشاہ بہت متاثر ہوا اور دربار میں اسے بہت احترام اور عزت دی۔ جب یوسفزئی قبیلے کے آپس میں اختلافات ختم ہوئے تو مانیری گاو¿ں کے مطرب زینون کو کالو خان بابا کے پاس دہلی بھیجا گیا۔ بابا سے اسکی ملاقات جامع مسجد دہلی میں ہوئی۔ وہ سمجھ گیا کہ زینون کوئی اہم پیغام لیکر آیا ہے۔ دعاءسلام کے بعد زینون نے بابا کو فارسی زبان میں کہا کہ "ہانڈی" تیار ہے۔ چونکہ زینون نے اپنا حلیہ ایک دیوانے کا بنایا ہوا تھا اسلئے دوسرے لوگ اسکی بات کا اصل مطلب نہ سمجھ سکے۔اگلے ہی روز کالو خان بابا نماز فجر کے بعد وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ عبور کرتے وقت مغل سپاہیوں نے شک کی بناءپر گرفتار کرکے واپس دہلی بھیج دیا۔ عام تاثر یہ تھا کہ اب اکبر بادشاہ انہیں قتل کیے بغیر نہیں چھوڑے گا مگر وہاں جاکر اسے مزید مراعات سے نوازا گیا مگر چونکہ قوم اور سرزمین کا سوال تھا اسلئے چند ہی روز بعد پھر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ وطن پہنچتے ہی بغاوت کا اعلان کیا۔ اسی دوران غازی خان بابا وفات پا چکے تھے۔ قوم نے ایکبار پھر کالو خان بابا کو قبیلے کا سربراہ مقرر کیا۔ لشکر لیکر”م±ور“ پہاڑی کی طرف روانہ ہوئے جہاں اسکا مقابلہ مغل سپہ سالار بیربل اور جرنیل زین خان کوکہ اور حکیم ابوالفتح کے لشکر سے ہوا۔

 تاریخ بتاتی ہے کہ کالو خان بابا نے مغلوں کے خلاف 79 جنگیں لڑیں اور سب کے سب وہ جیت چکے تھے ‘ اکبر بادشاہ کے سب سے چہیتے اور قابل جرنیل بیربل کو مار ڈالا تھا، جسکی موت پر شدید غم کے مارے اکبر بادشاہ نے دو دن تک کھانے پینے کو منہ نہیں لگایا تھا۔دوسری تاریخی لڑائی صوابی کے قریب میدانی علاقے میں لڑی گئی۔ اس لڑائی میں مغلوں کے پاس تمام جنگی سازو سامان موجود تھا مگر پھر بھی وہ شکست کھا گئے۔ سب سے بڑی اور مشہور لڑائی مغلوں کیخلاف بونیر کے”ملندری“ کے مقام پر لڑی گئی، جسکے لیے مغلوں نے چالیس ہزار فوج کے علاوہ اپنی بہترین حکمت عملی اور جنگی سازو سامان سے لیس لشکر تیار کیا تھا مگر یہاں بھی غیر تربیت یافتہ غیور قبائلی فوج نے کالو خان بابا کی سربراہی میں مغلوں کو اذیت ناک شکست دی، جسکی بازگشت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ آس پاس کے دوسرے ممالک میں بھی سنی گئی۔ یہ لڑائی جیتنے کیوجہ سے کالو خان بابا کو”فاتح ملندری“ کا خطاب دیا گیا۔کال درہ اور جگنات کے مقامات پر لڑائیوں میں فتح حاصل کرنے اور مغل فوجی جرنیل زین خان کو گرفتار کرنے کے باوجود اسے زندہ چھوڑاکیونکہ 1581ءمیں جب یوسفزئی قبیلہ کمزور حالت میں تھا تو جرنیل زین خان نے اکبر بادشاہ کو اسکی سفارش کرکے قبیلے کو مکمل تباہی سے بچایا تھا اسطرح کالو خان بابا نے انکے احسان کا بدلہ چکا دیا۔

دوراندیشی اور بہادری کیساتھ ساتھ کالو خان بابا اعلیٰ پائے کے شعلہ بیان مقرر بھی تھے، جسکا اندازہ ان کی اس تقریر سے ہوتا ہے جو انہوں نے”دمغار“ میں فتح کے بعد اپنے لشکر کے سامنے کی تھی اور انہوں نے مغلوں کے حمایت یافتہ لوگوں کو ورتہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ کالو خان بابا کی دوراندیشی ان کے خطوط سے بھی واضح ہے کہ جو انہوں نے مغلوں کیساتھ خط و کتابت میں لکھے تھے۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ایسے مشاہیر کا سکول کے بچوں کی کتابوں میں کوئی تذکرہ ہی نہیں، الٹا انکی تضحیک کیلئے مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے مضامین نصاب میں شامل کیے جائیں جن سے یہ مشاہیر طلباءپر آشکارا ہو سکیں اور ان سے سبق سیکھیں کہ اپنی سرزمین پر جان قربان کرنا کس قدر عظیم عمل ہے۔