کراچی مون سون کی زدمیں

بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے اس لئے رحمت کی طلب اور اسے پاناہر کسی کی خواہش ہوتی ہے۔ بارش سے موسم سہانا ہونے کے ساتھ ساتھ جسم و روح کو تازگی ملتی ہے۔ انسان تو انسان، چرند و پرند بھی بارش میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اسکے برعکس اس سال بارش کراچی والوں کیلئے باعث زحمت بن گئی ہے۔کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب گندگی اور کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، جبکہ کے الیکٹرک کی نااہلی اور بجلی کے بحران نے اسے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ جہاں پورے ملک میں بارش شروع ہوتے ہی سارے لوگ خوشی مناتے ہیں وہیں کراچی شہر کے باسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کراچی میں سیوریج سسٹم کی صفائی کے فقدان کے باعث وہاں نالے اُبل پڑتے ہیں اور ساتھ ہی بجلی بھی غائب ہو جاتی ہے۔ قدرتی نالوں پر لوگوں کے تجاوزات کیوجہ سے پانی کا بہاو¿ متاثر ہو گیا ہے۔عموماً کراچی میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں لیکن اس سال بارشیں حد سے زیادہ ہو رہی ہیں کیونکہ لاک ڈاو¿ن کیوجہ سے ماحولیاتی آلودگی کم ہو گئی ہے۔ محکمہ موسمیات کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ بارش 1967 ء میں ہوئی تھی جو 429.3 ملی میٹر تھی۔ کراچی میں بارش کی سالانہ اوسط 174.6 ملی میٹر ہے مگر اس سال ریکارڈ توڑ بارشیں ہو رہی ہیں۔

 ایک دن میں 86 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ گلشن حدید میں 60 ملی میٹر، شمالی کراچی میں 23.9 ملی میٹر، ناظم آباد میں 44.9 ملی میٹر، صدر میں 50ملی میٹر اور سرجانی میں 35 ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماضی میں تین تین سال مسلسل بارشیں نہیں ہوتی رہیں ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ترجمان نے کہا ہے کہ کراچی میں صرف ایک دن میں 86 ملی میٹر تک بارش ہونا معمول سے کہیں زیادہ ہے لیکن اتنا بھی زیادہ نہیں ہے کہ کراچی شہر کے بیشتر علاقے گھنٹوں پانی میں ڈوبے رہیں۔حالیہ بارش میں کے الیکٹرک کے 400 فیڈرز ٹرپ کر گئے، کہیں کہیں پر شارٹ سرکٹ اور پانی میں کرنٹ کی وجہ سے حادثات بھی پیش آئے ہیں۔ ابتک کل 17 قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں جس میں 11 کو بجلی کے جھٹکے لگے، ایک 6سالہ بچہ بنارس کے برساتی نالے میں، 12 سالہ اور 14 سالہ بچے ملیر کے پانی کے بہاو¿ میں ڈوب کر جاں بحق ہوئے، دو چھت گرنے سے جاں بحق ہوئے۔ کراچی میں44 بڑے برساتی نالے ہیں جن میں سب سے بڑے نالے گجر نالہ، اورنگی ٹاو¿ن نالہ، محمود آباد نالہ اور سولجر بازار نالہ ہیں، جو تقریباً آٹھ سے بارہ کلومیٹر تک لمبے ہیں۔ اس وقت یہ نالے ہزاروں ٹن کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ سالوں سے انتظامیہ کی سستی اور بروقت صفائی نہ کرنے کیوجہ سے ان نالوں میں وقت کیساتھ ساتھ سِلٹ اور س±الِڈ ویسٹ جمع ہو چکا ہے جسکی وجہ سے ان نالوں کی نکاسی آب کی سطح بہت کم ہو گئی ہے۔ مزید سڑکیں تعمیر ہو گئی ہیں لیکن ان میں پانی کے بہاو¿ کیلئے کوئی گزرگاہ کا انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ ان وجوہات کی بناءپر کئی کئی فٹ پانی سڑکوں پر گھنٹوں کھڑا رہتا ہے اور گھروں، دکانوں، مساجد اور ہسپتالوں میں بھی داخل ہو جاتا ہے۔اس تکلیف دہ صورتحال کے ذمہ داروں میں لینڈ مافیا اور یہاں کے عوام کی بے حسی و خود غرضی بھی شامل ہے۔

 غریب عوام قدرتی آبی گزرگاہوں پر ناجائز قبضہ کرکے کچے اور پکے گھر بنا چکے ہیں۔ نجی ہاو¿سنگ سوسائٹیز پانی کے قدرتی بہاو¿ کے راستوں میں زبردستی ردوبدل کرکے بلڈنگیں اور ہاو¿سنگ کالونیاں بنا چکے ہیں۔کراچی کے میئر وسیم اختر نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے ساتھ ملکر صفائی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ ترجمان این ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ گجر نالہ، کورنگی نالہ اور مواچھ گوٹھ نالہ 80 فیصد تک صاف کر دیا گیا ہے اور باقی پر کام جاری ہے۔ کراچی میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ عبد الستار ایدھی فاو¿نڈیشن، الخدمت فاو¿نڈیشن اور دوسرے فلاحی نجی اور سرکاری ادارے ریسکیو آپریشن کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے پاک فوج کو بھل صفائی مہم پر لگا دیا ہے جو اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے لیکن کراچی والوں کی دہائیوں کی اجتماعی غفلتوں اور کوتاہیوں کو دنوں میں تو دور نہیں کیا جا سکتا۔ساری سیاسی شخصیات اور پارٹی ارکان صفائی و ریسکیو آپریشن بھی کر رہے ہیں لیکن اس کیساتھ ساتھ کراچی کی بارش پر اپنی سیاست بھی چمکا رہے ہیں اور مخالفین پر طنز کے تیر بھی برسا رہے ہیں۔ جسمیں سیاسی مخالف جماعتوں نے بلاول بھٹو زرداری کا بارش کے متعلق کہا بار بار دہرایا کہ، ”جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے“۔ اسطرح بارش کے شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا کے صارفین بھی سیلابی ریلے کی طرح ٹوئٹر ایپ پر اُمڈ پڑے۔ ایک صارف نے پانی میں آدھی ڈوبی موٹر گاڑی کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ یہ 1955ء میں ڈان اخبار نے شائع کی تھی، ساتھ میں کیپشن میں لکھا، ” تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے“۔ ایک اور صارف نے پانی میں ڈوبے خیابانِ شہباز کراچی اور ڈی ایچ اے کا حال اپنی ویڈیو میں دکھایا۔

 ایک خاتون صارف نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر ویڈیو اپ لوڈ کی اور کہا کہ میرے گھر میں مچھلیوں کی بارش ہوئی ہے اور ساتھ میں استفسار بھی کیا کہ میں سمندر سے ایک کلومیٹر کی دوری پر ہوں، کوئی مجھے اس مچھلی بارش کے متعلق سمجھائے۔ ایک صارف نے اپنے ٹویٹر اکاو¿نٹ پر کراچی بارش کا ہیش ٹیگ لگا کر قربانی کے جانور کو باتھ روم میں بندھا دکھایا اور لکھا کہ ”بارش سے بچنے کا صرف یہی حل ہے“۔ ایک اور صارف نے خیابانِ اتحاد کے علاقے کو ویڈیو میں محفوظ کرکے پانی اور بجلی کے مسئلے کو پیش کیا اور طنزاً کہا کہ :کیا مزے کی بات ہے کہ کراچی میں بارش اور آتش بازی ساتھ ساتھ چلتے ہیں“۔ دوسری طرف سیاسی شخصیات بھی سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو دکھائی دئیے جن میں سینیٹر سعید غنی اور بلاول بھٹو زرداری پیش پیش رہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی نے کراچی بارش کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر مخالفین اور ہماری میڈیا کو ملامت بھی کیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا بند کیا جائے۔