حقیقت یہ ہے ملک میں مسلسل جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے میں سیاسی طبقہ کسی طور بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔؟"سول حکمران اتنے بھی کمزورنہیں رہے ہیں اور فوج اتنے بھی طاقت ور نہیں ہوتے جیسا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ بھٹو مرحوم نے آرمی چیف جنرل گل حسن اور ائر فورس کے سربراہ کو اغوا ءاوربرطرف کیا، جنرل یحی ٰ کو مسلسل نظربندرکھا، بارہ جرنیلوں کو بیک جنبش قلم برطرف کردیا۔ ملک کے پہلے سول مارشل لاءایدمنسٹریٹر وہ بنے تھے۔ نواز شریف صاحب نے جنرل جہانگیرکرامت سے استعفیٰ لے کرگھربھیجا ۔ ایڈمرل منصور الحق کو ہتھکڑی بھی پہنائی گئی۔" میجر عامر کہتے ہیں فوج اس ملک کا ایک اہم ادارہ اور سٹیک ہولڈر ہے۔ اس کے اہلکار محب وطن شہری ہیں۔ ملک کی سماجی و معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ "جب سیاسی محاذ آرائی، احتجاج، بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے ملکی معیشت بیٹھنے لگے تو ایسے میں ان کی پریشانی کیا فطری نہیں؟
اگر فوج کے سربراہ یا ترجمان اپنے اندرونی تاثر اور پریشانی کو زبان دیں تو ا س میں برا کیا ہے؟ چین کی کمیونسٹ پارٹی، امریکہ کے پینٹاگون اور سی آئی اے اور روس کی پولٹ بیورو وغیرہ میں باوردی جنرل بیٹھے خارجہ و دفاعی پالیسیاں بنانے اور چلانے میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی وہاں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف کسی حکمران کو بات کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حکمران تو قوم کا باپ ہوتا ہے۔ سب کی عزت کا محافظ ہوتا اور سب کا احترام کرتا ہے لیکن یہاں سیاسی طبقہ بھی فوج سے بغض رکھتا ہے اور اس کے خلاف سازشیں کرتا رہا ہے مجھے معلوم ہے۔" انہوں نے اس سلسلے میں کئی ایک واقعات سنائے جن کا بیان کسی اور وقت۔پوچھا گیا آپ پر آپریشن مڈنائیٹ جیکال کا الزام بھی لگا تھا۔ کیا یہ بات درست تھی؟ وہ بولے۔ " مجھ پر بےنظیر بھٹو مرحومہ کی حکومت ختم کرنے کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا۔ تحقیقات میں مجھے اس الزام سے بری کیا گیا‘میجر عامر روس کے خلاف افغان جہاد کے عینی شاہد اورافسانوی کردار ہیں۔۔
وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کی بقا کی جنگ تھی جس میں اللہ کی مدد شامل حال رہی۔ ہمارے سوالیہ نظروں کو بھانپتے ہوئے انہوں نے پاکستان کےلئے اس جنگ کے درجن بھر فوائد ایک ایک کرکے گنوائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی واقعات بھی سنائے۔مثلا 1986 میں جب روسی پائلٹ چترال میں پکڑے گئے تو ان کے جیبوں میں سورئہ یاسین کے نسخے تھے۔ اس کی وجہ پوچھی گئی تو وہ بولے ہمیں بتایا گیا کہ یہ نسخے جیب میں ہوں تو پھرسٹنگر میزائل جہاز کو مارگرا نہیں سکتا۔ "جنرل ضیاءنے رپورٹ دیکھی تو ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور کہا کہ مجھے یقین تھا کہ روسی یہاں سے شکست کھاکر جائیں گے لیکن اس کا نہیں پتا تھا جہاد افغانستان ان پر قرآن کی حقانیت بھی ثابت کردے گا ‘مثلا وہ بولے انہی دنوں ایک بار روسی پولٹ بیورو کے اندرونی سرکل کے اہم اجلاس کی روداد میںنے انٹلی جنس ذرائع سے حاصل کی۔ اجلاس میں افغانستان میں روسی افواج اور مجاہدین کی کارکردگی زیربحث تھی۔ روسی صدر گورباچوف بھی موجود تھے۔انہوں نے اس موقع پر کہاکہ افغانستان میں سویت فوج بھیجنے کافیصلہ ویسے بھی برزنیف نے اس وقت کیاتھا جس وہ ذہنی طورپر مفلوج تھا اورصرف اس نے نہیں بلکہ لینن اور سٹالن نے بھی تباہ کن غلطیاں کیں میں نے یہ واقعہ رپورٹ کرتے ہوئے اپنے اخذکردہ نتائج بھی لکھ دیئے ایک یہ کہ روسی فوج افغانستان سے واپس جا رہی ہے اوردوسرا روس میں کمیونزم کی بقا خطرے میں ہے میں نے یہ دونوں نتائج اس بنیاد پر لکھے تھے کہ گورباچوف نے اشتعال میں آکر برزنیف کے فوج بھیجنے کے فیصلے اورلینن وسٹالن کے فلسفہ کو رد کردیاتھا اشتعال میں آکر فوری ردعمل کے طورپر کہی ہوئی بات لاشعور سے نکلتی ہے اور یہی میرے تجزیئے کی بنیاد تھی ۔آئی ایس آئی کے سربراہ نے میرے تجزیہ سے اتفاق نہیں کیا۔
تاہم میرے اصرار پررپورٹ جنرل ضیاءکو بھیجی گئی انہوں نے رپورٹ پڑھتے ہی بلاکسی توقف کے اس پرلکھا کہ یہ ہمیشہ سے میرا عقیدہ رہاتھاکہ روسی افغانستان سے بھاگیں گے میں رپورٹنگ افسرکے دونوں نتائج سے متفق ہوں ویلڈن اینڈ کیپ اٹ اپ میجر عامر آگے چل کربتانے لگے کہ کیسے ایک بارخاد کے پاکستان میں انڈر کور سربراہ کو ساتھ ملانے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ کی طرف سے بات چلی اورانہوں نے یہ کام میرے حوالہ کیا میں نے اپنے چیف سے وعدہ کیااور کام شروع کردیا وہ بتاتے رہے کہ کیسے اس دوران انہوں نے مسلسل کوشش کرکے خاد کے اسلام آباد میں پختون چیف کی پختون غیرت اور ماو¿ں بہنوں کی عزت کی حفاظت کا جذبہ ابھارا۔میجر عامر بولے "اپنے اکلوتے چارسالہ بیٹے کو اسلام آباد کے مضافات میں ایک خفیہ جگہ اس کے پاس، یہ یقین دلانے کےلئے کہ میں اپنی بات اور پیشکش میں سچا ہوں، لے گیا۔ اس نے کہا آپ اور میں اکیلے ہیں۔ آپ مجھ سے بدن میں کمزور ہیں۔ آپ کو ڈر نہیں لگاکہ ایک انٹلی جنس اہلکار سے اپنے اکلوتے بچے سمیت رات کو اس ویرانے میں ملنے آئے، آپ کی اوربچے کی تو جان بھی جاسکتی ہے۔ میجر عامر بولے اس پر میں نے کہا اس صورت میں ہم اللہ کی راہ میں شہید ہوجائیں گے اور یہ ہر مومن کی دلی آرزو ہے۔ اس پر اس نے میرے بیٹے کا ہاتھ پکڑا، اس پر میرا ہاتھ رکھا اور میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا یہ ایک پختون کا وعدہ ہے آج کے بعد افغانستان کی آزادی اورپاکستان کی سالمیت کےلئے میں اس ننھے مجاہد کے شانہ بشانہ ہوں۔
یہ افغان جہاد میں ایک اہم کامیابی اورحیران کن موڑ تھا ۔ اس کے بعد اس نے واقعی اپنے وعدے کا پاس رکھا اور قیمتی معلومات مہیا کرتا رہا۔"میجر عامر پاکستان کو مملکت خداداد کہتے ہیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند پختون پاکستان کے خلاف افغانستان کی زبان بولتے رہتے ہیں لیکن ان میں کوئی نہیں جو وہاں حقیقت میں شفٹ ہونا چاہتا ہے یا اس کا پاسپورٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ "پختونوں کو معلوم ہے ان کے قبائلی اور میدانی اضلاع افغان حکمران عبدالرحمن نے چھ لاکھ روپوں کے عوض برطانیہ سرکار کو فروخت کردیئے تھے اور 1893 میں ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت افغانستان ان سے دست بردار ہوگیا تھا۔ اس معاہدے کی 1930 تک کئی بارمختلف افغان حکومتوں نے تصدیق و توثیق کی۔ اب یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔ پختون پاکستان کےساتھ وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستان کے مفت کے سپاہی ہیں۔ یہ یہاں ملک بھر میں پھیلے تجارت کر رہے ہیں۔ کراچی کے علاوہ جس میں بہت زیادہ پختون کاروبار پر چھائے ہوئے ہیں، لاہور اور پنڈی میں بھی بیس سے پچیس لاکھ پختون کاروبار اورجائیدادوں کے مالک ہیں۔ یہی مثال ملک کے ہر صوبے کے تقریبا ہر بڑے شہرکی ہے۔ پختون ہر جگہ یہاں ترقی کررہے اور خوش ہیںافغانستان ہمارا دوست نہیں بھائی ہے دونوں اطراف سے ایک نہیں بے شمار غلطیاں ہوئیں اس خطہ میں صرف پختون ہی تقسیم نہیں پنجابی ،بنگالی ،بلوچ ،کرد ،تاجک ‘ ازبک سمیت بہت ساری قومیتیں منقسم ہیں سب اپنے اپنے ملک میںعزت و خوشی سے زندگی گزاررہی ہیں افغانستان کے پختون وہاں اور پاکستان کے پختو ن یہاں دوسری اقوام کی طرح اول درجہ کے شہری ہیں پاکستان میں پختون صدر مملکت بھی بنے وزیر اعظم بھی ،اورافواج کے سربراہ بھی یہی مقام افغانستان کے پختونوں نے افغانستان میں کئی دفعہ حاصل کیاہے ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مسئلہ پشاور اور جلال آباد نہیں بلکہ کابل اوراسلام آبادکے درمیان ہویہ دونوں قریب آئیں گے تو دونوں ممالک کے پختون خود بخود قریب آئیں گے دوسروں کے لیے کھیل کھیلنے سے اجتناب کرناہوگا ‘شام کے سائے لمبے ہوتے جارہے تھے ہم نے بادل نخواستہ اجازت چاہی تشنگی برقرار تھی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دوست مہرباں علامہ بخت رازق کہنے لگے بہت کم ایسا ہوتاہے کہ ایک ہی عہد میں ایک ہی خاندان کو دینی محاذ پر شیخ القران مولانا محمد طاہر اوردنیاوی محاذ پر میجر عامر نصیب ہوئے ہوں بقول شاعر
قیس سا پھر نہ اٹھاکوئی بنی آدم میں
فخرہوتاہے قبیلہ کاسدا ایک ہی فرد