انقلابات کے محرکات

دنیا میں انقلابات کے کئی محرکات میں اہم کردار ظلم و بربریت، بھوک و افلاس اور بیروزگاری کا رہا ہے۔ 1917 کا انقلاب روس اسوقت رونما ہوا جب ولادمیر لینن جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور کارل مارکس کے نظریے سے متاثر تھا، نے بالشویک پارٹی کی بنیاد رکھی۔ کارل مارکس جو 1818ئ میں جرمنی میں پیدا ہوا، وہ ملکی پیداوار میں مزدوروں کو انکے جائز حق سے محروم رکھنے سے اسقدر متاثر ہوا کہ کمیونزم کا فلسفہ پیش کیا۔ وہ کالج کے زمانے سے انقلابی ذہن کا مالک تھا۔ وکالت کے پیشے سے تعلق رکھنے کیساتھ ساتھ وہ ایک ماہر اقتصادیات، فلاسفر، ماہر عمرانیات، سیاسی مفکر اور صحافی تھا۔جرمنی کے عوام میں بیداری پیدا کرکے انہوں نے 1848ءمیں انقلاب لانیکی کوشش کی مگر ناکام ہوئے اور وہاں سے بھاگ کر لندن میں مرتے دم تک پناہ لی۔روس میں زار نکولس جو ملکہ برطانیہ وکٹوریہ اور جرمنی کے کیسر وِدلَم کے چچا زاد تھے، کے دور میں روس میں پیداواری ذرائع اور اسکے استعمال پر اسکے رشتہ داروں کی اجارہ داری تھی، جسکی وجہ سے اشیاءکے نرخ اور پیداوار ان کی مرضی سے مقرر کیے جاتے تھے۔ جسکے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اسی دوران ولادمیر لینن نے اپنی بالشویک تحریک کو متحرک کیا اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا۔ ان ہنگاموں میں زار روس اور انکے اہلخانہ کو قتل کیا گیا۔ماضی قریب میں ایک اور انقلاب مشرقی افریقہ کے ملک ایتھوپیا میں اسوقت برپا ہوا جب سال 1974ء میں وہاں مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر تھی۔ اشیائے ضروریہ کے نرخ صبح و شام بدلتے رہتے تھے۔ جسکی وجہ سے عوام کی قوت خرید جواب دے چکی تھی۔ اسوقت ایتھوپیا میں ہیل سلاسل بادشاہ ہوا کرتا تھا۔

 اسنے اپنے بارے میں یہ تاثر عام کر دیا تھا کہ اسکا کہا خدا کا فرمان ہوتا ہے۔ اس لئے اسکے خلاف کسی کو بات کرنے کی جرات و ہمت نہیں ہوتی تھی۔ روزگار کے سارے مواقع شاہی خاندان کے ہاتھوں میں ہوتے تھے۔ رشوت اور بدعنوانی عام تھی۔ہوا یوں کہ ایک دن ایک ٹیکسی ڈرائیور تیل ڈلوانے پیٹرول پمپ گیا اور پمپ والے کو مطلوبہ رقم تھما دی تو آگے سے تیل ڈالنے والے نے مزید رقم کا مطالبہ کیا اور کہا کہ تیل مہنگا ہو گیا ہے۔ اس پر ٹیکسی ڈرائیور کا پارہ چڑھ گیا اور کہا کہ میں نے آج صبح ہی اتنی رقم سے اتنا ہی تیل ڈلوایا ہے اور اب تم مجھ سے مزید رقم مانگ رہے ہو۔ اسی جھگڑے کے دوران اور گاڑیوں والے بھی آ گئے، جنکو ٹیکسی والے کی بات مناسب لگ رہی تھی۔ ہوتے ہوتے کافی سارے لوگ اکھٹے ہو گئے۔ چونکہ ہر کوئی مہنگائی کا مارا ہوا تھا اس لئے انہوں نے ٹیکسی والے کا ساتھ دیا۔ جب تقریباً سو کے قریب لوگ جمع ہو گئے تو انہوں نے جلوس کی شکل میں بازار کا رخ کیا۔ وہاں موجود گاہکوں نے بھی جلوس کا ساتھ دیا۔ اسطرح ہزاروں کا مجمع جلوس کی شکل میں محل کی طرف روانہ ہوا۔ اسی دوران جب فوج کے ایک انقلابی کرنل مینگسٹو کو پتہ چلا تو اسنے فوراً ہی آفیسر میس میں آکر فوجی وردی اتار کر سویلین وردی پہنی اور جلوس میں شامل ہو کر اسکی قیادت کی۔محل میں ڈیوٹی پر مامور اہلکار چونکہ حالات سے تنگ تھے اسلئے انہوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ جلوس میں شامل لوگوں نے بادشاہ ہیل سلاسل اور اسکے اہلخانہ کو قتل کر دیا اور کرنل مینگسٹو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔انقلاب ایران بھی ہمارے سامنے ہے، جو پہلوی خاندان کے آخری بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور حکومت میں رونما ہوا۔ ایران کے عوام پر جو تکالیف اور سختیاں اس دور میں گزریں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تہران کے علاوہ جو ایران کا دارلخلافہ ہے، باقی کہیں بھی ترقی نظر نہیں آ رہی تھی۔ دیہاتی علاقوں میں بھوک اور بیروزگاری کا دور دورہ تھا۔

 یہاں بھی کسی کو بادشاہ کے خلاف بات کرنیکی جرات نہیں ہوتی تھی کیونکہ "ساواک" نامی خفیہ ایجنسی اسقدر طاقتور تھی کہ شوہر اپنے بیوی سے بھی حکومت کے خلاف بات نہیں کر سکتا تھا، کیونکہ ماضی میں کئی ایک ایسے واقعات ہو چکے تھے کہ ساواک شوہر کو اٹھا کر غائب کر دیتے تھے۔ بعد میں پتہ چلتا کہ اس شخص نے بیوی سے حکومت کے خلاف کوئی بات کی تھی۔ ساواک کا عوام پر اتنا گرفت تھا کہ کسی دن موسم کی خرابی پر ایک شخص نے دوسرے شخص سے کہا کہ آج کتنا منحوس موسم ہے تو اس بات پر بھی اسطرح کہنے والے شخص کو اٹھا کر عقوبت خانے میں ڈالا گیا۔ ساواک کی تربیت امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے زیر نگرانی ہوتی تھی۔ ساواک اسقدر مضبوط ادارہ تھا کہ ملک میں کسی بھی ادارے میں اسکی مداخلت کے خلاف کوئی قانون نہیں تھا۔ انکے بہت ہی خطرناک عقوبت خانے ہوتے تھے جہاں حکومت مخالفین کو شدید قسم کی اذیتیں دی جاتی تھی۔ان تمام کربناک حالات نے عوام کا ناک میں دم کر رکھا تھا، مگرسال 1979ءمیںامام خمینی کے انقلاب کے ذریعے پہلوی خاندان کی بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ حالت یہ ہوئی کہ اپنے ملک سے بھگوڑا اور جلاوطنی میں موت آنے پر دنیا کے طاقتور ترین شہنشاہ ایران کو قبر کیلئے جگہ نہیں مل رہی تھی، حتیٰ کہ امریکہ نے بھی اسکی لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ آخرکار مصر کے انور سادات نے اسے اپنے ملک میں دفنانے کی پیشکش کی جسکی وجہ یہ تھی کہ انور سادات رضا شاہ پہلوی کے بیٹے کا سسر تھا۔

انقلاب فرانس کی ابتدا بھی 1789ءمیں ایسے حالات میں ہوئی جب فرانس اور اسکے مقبوضہ علاقوں میں سیاسی اور سماجی بے چینی حد سے بڑھ گئی تھی اور عوام کو کھانے پینے کی اشیاءتک رسائی مشکل ہو چکی تھی ظلم اور بربریت کا عالم تھا۔ شاہی خاندان کے بادشاہ لوئی شانزدہم (لوئی-16) کے زمانے میں بچوں بوڑھوں کو مارنا پیٹنا معمول بن چکا تھا۔ بادشاہ کی بگھی کے نیچے آکر ایک بچہ جب ہلاک ہوا تو بادشاہ نے غصے میں آکر اسکے باپ کو جان سے اس لئے مار ڈالا کہ اسکے بچے کیوجہ سے بادشاہ کے آرام میںخلل پڑ گیا تھا۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کو بےدم کر دیا تھا۔ انقلابیوں نے بادشاہ اور ملکہ کو گرفتار کر کے بادشاہ کو پھانسی دے دی۔ اسی کشمکش کے دوران 1804ءمیں فرانسیسی جرنیل نیولین بوناپارٹ اقتدار پر قبضہ کرکے بادشاہ بن گیا۔انقلابات کی وجوہات و محرکات کا احاطہ ایک کالم میں کرنا ممکن نہیں مگر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انقلاب اسوقت آیا جب ظلم و بربریت اور بھوک افلاس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔