ہماری نوجوان نسل میں سے کثیر تعداد میں طالب علم ملک میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے کسی ترقی یافتہ ملک چلے جاتے ہیں لیکن ان میں بہت کم واپس لوٹتے ہیں۔ان میں سے اکثروہیں پر رہائش اختیار کر لیتے ہیں اور وہاں کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پاکستان کے اندر چند ایک اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان بھی روزگار کی تلاش میں بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور اپنا اعلیٰ معیار و قابلیت غیر ملکیوں کیلئے صرف کرتے ہیں اور انہی ملکوں کی ترقی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری سیاسی و غیر سیاسی لوگوں کی بھی یہی خواہش و کوششیں ہوتی ہیں کہ کسی طرح ایک ترقی یافتہ بیرون ملک کی شہریت حاصل کرلےں تاکہ اپنے بچوں کو وہاں کی تعلیم دلوا سکےں اور اپنے اہل و عیال کو وہاں سیٹ کرا سکےں اور ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی وہاں پر رہ سکےں جبکہ سروس کے دوران چھٹیاں منانے بھی باہر ہی جاتے ہیں۔ ان سیاسی و غیر سیاسی لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو یہاں پر پیسہ غیر قانونی طریقے سے کماتے ہیں اور بیرون ممالک میں پراپرٹیز خریدتے ہیں تاکہ ہنگامی حالات میں پاکستان چھوڑ سکیں۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 63 ون کے مطابق کوئی بھی پاکستانی جو دہری شہریت رکھتا ہو، وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ ماضی قریب میں ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اس آرٹیکل کو لاگو کرنے کیلئے ایکشن لیا کیونکہ ہماری پارلیمنٹ میں بہت سارے ممبران دوسرے ملکوں کی بھی شہریت رکھتے تھے۔
سال 2013ءمیں دہری شہریت کے حامل گیارہ 11 ممبران کو اعلیٰ عدلیہ نے خود ہی ایکشن لیکر حکومت کے کسی بھی قسم کے عہدے کیلئے نااہل قرار دیا۔ اسی سال سینٹ نے اسکے متعلق ایک اور بل منظور کیا کہ 20 سے 22 گریڈ تک کوئی بھی سرکاری افسر دہری شہریت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے سیاستدانوں کی آپس میں نااتفاقی، غفلت اور بے حسی کیوجہ سے اس بل کو ابھی تک کوئی قانونی حیثیت نہیں دی گئی ہے دہری شہریت کا مسئلہ وقتاً فوقتاً مختلف اوقات و ادوار میں اٹھتا رہا ہے۔آصف علی زرداری کے دور صدارت میں جب یہ مسئلہ اٹھا تو بہت سارے لوگوں کے علاوہ رحمان ملک کو بھی سیاسی مخالفین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ رحمان ملک برطانیہ کی شہریت رکھتے ہیں اور کہا گیا کہ زرداری نے وزارت داخلہ جیسے حساس ادارے پر ایک برطانوی شہری کو بٹھایا ہے۔ مخالفین کی جانب سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ چونکہ برطانوی یا کوئی بھی غیر ملکی شہریت لینے کیلئے اس ملک کے کیساتھ وفادری کا حلف اٹھایا جاتا ہے اس لئے ایک دہری شہریت والا شخص بیک وقت دو ملکوں کیساتھ کیسے وفادار ہو سکتا ہے جبکہ وہ ایک حساس عہدے پر فائز بھی ہو۔ اس کیس کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے سنا اور رحمان ملک کو وزارت داخلہ کے عہدے کیلئے نااہل قرار دیا۔ زرداری نے رحمان ملک کو اس عہدے سے ہٹا کر اپنا مشیر خاص بنا دیا۔ نواز شریف کے پچھلے دور حکومت (سال 2018ء) میں یہ مسئلہ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اٹھایا۔ اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ سارے سرکاری اداروں کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسران کے بقلم خود دستخط شدہ کوائف جمع کیے جائیں، اور معلوم کیا جائے کہ کون کون دہری شہریت کے حامل افسران ہیں۔ اس پر ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں اپنی انویسٹی گیشن رپورٹ پیش کی کہ ایک ہزار کے قریب بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر براجمان افسران دہری شہریت رکھتے ہیں، جسمیں 719 نے خود دستخط کیے ہیں کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں لیکن باقی نے ماننے سے انکار کیا ہے۔
عدالتی کاروائی کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک ساتھ دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوا جا سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکٹروں اور اساتذہ کی دہری شہریت رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن حساس سرکاری اداروں پر ایسا شخص براجمان نہیں ہو سکتا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے ریمارکس دیئے کہ اگر سیاسی شخصیات کی دہری شہریت رکھنے پر پابندی عائد ہے تو بیوروکریٹس پر کیوں نہیں؟ اور مزید کہا کہ ملک میں دھوکہ دہی سے پیسے بنا کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے ابھی تک بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے 52 صفحات پر مشتمل دہری شہریت کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنایا کہ بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز کوئی بھی شخص دہری شہریت نہیں رکھ سکتا چاہے وہ آرمی چیف اور چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو اور کہا کہ حکومت کو اس متعلق سخت قانون سازی کرنی چاہئے، جسکے نفاذ کیلئے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ یہی مسئلہ حال ہی میں پھر اٹھا جب وزیراعظم عمران خان صاحب کی ذاتی درخواست پر ڈاکٹر ظفر مرزا ڈبلیو ایچ او کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت لگ گئے۔ اسی طرح کینیڈا کی پیدائش رکھنے والی پاکستانی تانیہ ایدروس کو ملک بلا کر "ڈیجیٹل پاکستان فاو¿نڈیشن" کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے اراکین اور باقی سیاسی پارٹی کے ممبران نے جب دہری شہریت کا معاملہ ڈاکٹر ظفر مرزا اور تانیہ ایدروس کے حوالے سے اٹھایا تو دونوں نے اپنے استعفے وزیراعظم کو خود پیش کر دئیے۔ لیکن سیاسی حلقوں کے مطابق وزیراعظم صاحب نے پریشر میں آکر دونوں سے استعفے لے لیے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے آئین میں دوہری شہریت کے متعلق واضح احکام موجود ہے اور اس متعلق سابقہ چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار صاحب کا 2018ءمیں مدلل اور واضح فیصلہ موجود ہے تو پھر ہمارے حکومتی سربراہان سے یہ غلطی بار بار کیوں سرزد ہوتی ہے اور کیوں دہری شہریت کے حامل افراد کو اہم اور حساس اداروں پر متعین کر دیا جاتا ہے۔ ساری سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایسی قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ کسی بھی سرکاری اور حساس ادارے میں کوئی دہری شہریت رکھنے والا کسی بڑے عہدے پر فائز نہ ہو سکے۔