دنیا کی تاریخ کا بنظر غائر مطالعہ کرنے اور اسکا تجزیہ کرنے سے ایسے حقائق سامنے آ جاتے ہیں کہ جو عام فہم سے بہت دور ہوتے ہیں۔ کئی اہم اور معتبر شخصیات کا اصلی چہرہ اور انکے ذہنی رحجانات سامنے آ جاتے ہیں۔ عام لوگوں کی نظروں میں کئی ظالم اور جابر شخصیات اصل میں بہت نرم مزاج اور انسان پرور ہوتے ہیں تو کئی پارسا اندر سے بڑے ظالم اور سفاک ہوتے ہیں۔ کئی افراد بظاہر خدا پرست اور کٹر مسلمان نظر آتے ہیں مگر اندر سے منافق اور دوغلے ہوتے ہیں۔ ان جیسے لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداللہ ابن ا±بّی اور اس کے چند ساتھی جو بظاہر مسلمان تھے
مگر اندر سے انتہاکے منافق اور جھوٹے تھے۔مشہور امریکی گلوکار مائیکل جیکسن جسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آخری عمر میں مسلمان ہو چکا تھا، مگر اس نے اسکا برملا اظہار نہیں کیا تھا۔ اسی طرح انڈین گانگریس کے چوٹی کے رہنما مہاتما گاندھی کو انتہا پسند ہندوو¿ں نے اسلئے قتل کیا تھا کہ انہیں اس پر مسلمان ہونے کا شک تھا، حالانکہ اس نے ایک دفعہ ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ میں ہندو ہوں اور ہندو ہی مرونگا۔ ایسی دوسری یورپی نامور شخصیات تاریخ میں گزری ہیں جو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور اصولوں سے بہت متاثر تھے۔
ان میں ہٹلر جیسا ظالم حاکم بھی شامل تھا جس نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تو انکا پیروکار ہوتا۔مشہور انگریزی ڈرامہ مصنف اور سیاسی کارکن برنارڈ شاہ نے برسرعام کہا تھا اور جو رپورٹ بھی ہوا ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لئے متاثر ہوں کہ اس نے تن تنہا کھڑے ہوکر ایک ایسے فلسفے اور نظام کا اعلان کیا جو بعد میں پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ایسی درجنوں اور شخصیات تاریخ میں گزری ہیں۔ بہرحال آج ہم جس تاریخی شخصیت کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ فرانس کے مشہور زمانہ جرنیل اور بادشاہ نپولین بوناپارٹ ہے، جو اٹلی کے ایک جزیرے میں پیدا ہوئے۔ اسوقت اٹلی پر فرانس کا قبضہ تھا۔ انہوں نے فرانس میں فوجی تربیت حاصل کی۔
20 سال کی عمر میں کپتان بن گئے۔ 1794ءمیں اٹلی کے محاذ پر ایسے زبردست کارنامے سر انجام دئیے کہ اعلیٰ پائے کے جرنیل قرار پائے اور ایک سال بعد فرانسیسی فوج کے کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔1799ءکے انقلاب فرانس کے بعد پانچ سال تک ہنگامے رہے‘ 1804ءمیں نپولین اقتدار پر قبضہ کر کے خود بادشاہ بنے۔ اس نے تھوڑے عرصے میں یورپ کی بڑی بڑی سلطنتوں پر قبضہ کر لیا۔ نپولین کو تاریخ میں ایک عظیم فاتح اور ظالم و جابر حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔نپولین کی نظریں اپنی دشمن برطانیہ پر لگی ہوئی تھیں۔ آسٹریا پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے یورپ کے بڑے بڑے ممالک پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ایک سکیم بنائی کہ مصر کے راستے ایشیائی ممالک کو برطانیہ سے چھین لیا جائے۔
اس وقت مصر پر سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیم ثالث کی حکمرانی تھی۔ نپولین 1798ءمیں لشکر لے کر مصر پر حملہ آور ہوا۔ روس اور آسٹریا سے برسر پیکار ہونے کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ اس قسم کے حالات نپولین کے لئے نہایت سازگار ثابت ہوئے اور مصر کی لڑائی میں فتح حاصل کی۔ اسی دوران روس اور آسٹریا نے نپولین کے مفتوحہ ملک یونان پر حملہ کر دیا۔ لہذٰا نپولین کے پاس مصر میں ٹھرنے کے سوا اب کوئی اور چارہ نہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے صلح کرکے انہیں یقین دلایا کہ وہ مسلمانوں کا بہت بڑا ہمدرد ہے۔
ایک مرتبہ عربی لباس پہن کر عید میلادالنبی میں شرکت بھی کی۔ اسی دوران نپولین نے علماءقاہرہ سے اپنے حق میں فتویٰ بھی جاری کروایا، مگر مصر کے عوام میں بے چینی پھیل گئی تھی جس کی وجہ سے وہاں پر ہنگامے شروع ہو گئے۔ فرانسیسی فوج نے مصر کے عوام کا قتل عام کیا۔ اسی دوران نپولین کو واپس فرانس جانا پڑا۔ فرانس پہنچنے کے بعد نپولین نے سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیم ثالث سے صلح کا معاہدہ کیا کیونکہ فرانس دوسرے محاذوں پر مصروف جنگ تھا۔ یہ وہی دور تھا جب ہندوستان میں ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف برسرپیکار تھا۔
لہذا نپولین نے اپنے دشمن برطانیہ کے خلاف ٹیپو سلطان سے ملکر برطانیہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا معاہدہ کیا۔مصر میں قیام کے دوران نپولین نے اسلام کا مطالعہ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے بہت زیادہ متاثر ہو گئے تھے۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ معاہدے کے بعد سلطنت برطانیہ میں کھلبلی مچ گئی۔ انہوں نے ٹیپو سلطان اور نپولین کے ایک ساتھ ملنے سے پہلے پہلے ٹیپو سلطان کو 1799ءمیں راستے سے ہٹا دیا۔مورخین لکھتے ہیں کہ اگر ٹیپو سلطان اور نپولین آپس میں مل جاتے تو فرنگی راج کا ہندوستان سے مکمل خاتمہ کر دیتے۔مصر میں ایک سال قیام کے دوران 6 دسمبر 1798ءکو مشہور فرانسیسی اخبارThe Gazette National de Moniteur Universal میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ نپولین مسلمان ہو چکے ہیں اور اس نے اپنا نام علی نپولین رکھ لیا ہے۔
چونکہ نپولین کے والدین کیتھولک عیسائی تھے اس لئے اس نے کلیسا سے اختلاف کے پیش نظر اپنے ظاہری طور طریقے نہیں بدلے تھے۔ وہ مصری علماء سے اکثر ملتے رہتے تھے، جس کی وجہ سے ا±نہیں مکمل اسلامی تعلیمات کی آگاہی حاصل ہوئی۔ اس نے اسلامی فقہ کے مطابق سزا و جزا کے قوانین نافذ کیے۔ اللہ اور اسکے رسول سے بے پناہ محبت کے اظہار کے طور پر مصر میں قیام کے دوران عید میلاد النبی کے روز فرانسیسی فوج کو قاہرہ کی سڑکوں پر پریڈ کرنے کا حکم دیا۔ اگست 1798ءکو مصر کے شیخ الاسلام کو ایک خط میں لکھا کہ "میں تمام دانشوروں کو ملا کر دنیا میں قرآن کے اصولوں پر مبنی ایک منظم حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ صرف قرآن پاک پر عمل کرکے ہی انسان سچی خوشیاں حاصل کر سکتا ہے"۔امریکی مورخ ج±وَان ک±ول نے اپنی کتاب "Nepolean's Egypt" میں لکھا ہے یہ سچ ہے کہ نپولین دل سے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا احترام کرتے تھے۔ مشہور محقق اینڈریو نائٹن نے بھی اپنے ایک مضمون میں نپولین کو عاشق رسول کے لقب سے یاد کیا ہے۔ مصری دانشوروں نے اسے سلطان الکبیر کا خطاب دیا تھا۔ نپولین نے بعد ازاں "نپولین کوڈ" کو فرانس، اٹلی، جرمنی، بیلجیئم اور پولینڈ وغیرہ میں رائج کیا تھا۔ اس کوڈ کے کئی دفعات اسلامی تعلیمات سے ماخوذ تھے۔