نقل ذہانت ”برین ڈرین“

کسی ملک سے قابل اور ہنرمند افراد کا معاشی و معاشرتی ناہمواری، وسائل اور انسانی قدر و قیمت میں کمی کے سبب بہتر زندگی اور زیادہ رزق کے حصول کیلئے دوسرے ممالک ہجرت کرنا”نقلِ ذہانت “یعنی ”برین ڈرین“ کہلاتا ہے۔ اس عمل سے چھوڑے ہوئے ملک کو شدید معاشی نقصان پہنچتا ہے۔پاکستان چونکہ روز اول سے لیکر ابتک ایک ترقی پذیر ملک رہا ہے اسلئے اسکا شمار ابھی تک برین ڈرین کے ممالک میں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اصل برین ڈرین 1971ءکے بعد شروع ہوا جب انڈیا نے جنگ کے ذریعے مشرقی پاکستان الگ کرکے بنگلہ دیش بنا ڈالا۔ ا±سوقت پاکستان کی زیادہ تر انڈسٹری مشرقی پاکستان میں تھی۔ اس جنگ کے نتیجے میں ہمیں شدید مالی نقصان پہنچا۔ ا±س دور میں بیروزگاری عروج پر پہنچ گئی۔

 

جب پورے مغربی پاکستان کی انجینئرنگ یونیورسٹیوں سے طلباء فارغ ہوئے تو روزگار نہ ملنے کے باعث سے احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ کئی جگہوں پر انجینئرنگ گریجویٹس نے پکوڑوں کے ٹھیلے لگا دئیے۔ ”انجینئر پکوڑا فروش“ اور”انجینئر برائے فروخت“ کے بینرز آویزاں کیے۔ اسوقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے طلباءکے اس احتجاج کا احساس کرتے ہوئے ایمرجنسی میں خلیجی ممالک کیساتھ معاہدے کیے اور ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل انجینئروں کو عرب ممالک نوکریوں کیلئے بھیج دیا۔ پھر جنرل ضیاءالحق کے دور میں ہم افغان روس جنگ کا حصہ بن گئے اور لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ اس سے ہماری معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوئے۔

 

سویت یونین کی افغانستان میں شکست و ریخت ہوئی لیکن جاتے جاتے ہمارے ہاں کلاشنکوف کلچر، ہیروئن اور دہشت گردی ورثے میں چھوڑ گیا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ 9/11 واقعہ رونما ہونے کے بعد جب امریکہ، نیٹو افواج سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا تو جنرل مشرف نے افغان طالبان کیخلاف امریکہ کا ساتھ دیا، جسکی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسکو جنرل راحیل شریف نے کافی حد تک کنٹرول کرلیا لیکن اسکے باوجود ابھی تک کہیں نہ کہیں یہ واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ صدر ب±ش کے جاری”وار آن ٹیرر“ میں ہمیں ابتک کئی سو ارب ڈالرز اور تقریباً ایک لاکھ قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔

 

ملک میں کئی دہائیوں سے صحیح معنوں میں ترقی نہ ہونے، بیروزگاری، دہشت گردی اور اغواءبرائے تاوان کے بڑھتے واقعات کے انتہا پر پہنچنے کی وجہ سے ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ملک سے بھاگ رہے ہیں۔ اِسوقت ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ہر سال سرکاری و نجی یونیورسٹیوں سے انجینئر فارغ ہو جاتے ہیں جس میں صرف تھوڑے یہاں پر مناسب نوکری حاصل کر لیتے ہیں، باقی روزگار ڈھونڈنے کیلئے خلیجی ممالک چلے جاتے ہیں۔ ان میں اکثر اعلیٰ تعلیم کیلئے یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں چند ایک واپس لوٹتے ہیں، باقی سارے وہاں کی شہریت حاصل کرکے وہیں پر مستقل رہائش پذیر ہو جاتے ہیں۔ انجینئرنگ کے بعد میڈیکل شعبہ دوسرے نمبر پر آتا ہے جسکا برین ڈرین ہو رہا ہے۔ اسمیں کچھ تو سی ایس ایس کرکے پولیس، فارن سروس اور ڈی ایم جی گروپ میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں اور زیادہ تر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ذریعے باہر کسی ترقی یافتہ ملک میں جاکر مستقل سکونت اختیار کر لیتے ہیں۔


برین ڈرین کا منبع پاکستان میں پچھلی کئی دہائیوں سے جاری کرپشن، اقرباءپروری، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی ہے۔ ماضی قریب میں اغواء برائے تاوان کے بڑھتے واقعات رونما ہونے کیوجہ سے پاکستان میں سکونت پذیر بہت سارے ڈاکٹر حضرات اپنے گھر اور کلینکس بیچ کر بمعہ فیملی بیرون ملک چلے گئے۔ سال 2012ءمیں ڈاکٹر انتخاب عالم کو خاندان کے لوگوں نے بھاری رقم دیکر اغوا کاروں سے رہا کروایا۔ سال 2013ءمیں اغواءبرائے تاوان کے واقعات کثرت سے وقوع پذیر ہوئے۔ پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے وارڈ انچارج ڈاکٹر امجد تقویم کو حیات آباد پشاور سے نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے نکلتے وقت اغواءکیا گیا۔ ڈاکٹر مجاہد حسین بنگش کو اسی سال ستمبر کے مہینے، جبکہ ڈاکٹر کامران عامر کو اکتوبر میں حیات آباد پشاور سے اغواءکیا گیا۔

 

اس پر پشاور کے سارے ڈاکٹروں نے ہڑتال بھی کی، لیکن ان اغواشدہ ڈاکٹروں کو خاندان کے لوگوں نے اغوا کاروں کو تاوان کی ادائیگی پر چھڑوایا۔ انہی واقعات کیوجہ سے پشاور شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹر اسلام آباد بمعہ فیملی شفٹ ہو گئے اور کچھ بیرون ملک چلے گئے۔ دہشت گردی کے اسطرح کے واقعات پیش آنے کیوجہ سے ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد پاکستان کو مجبوراً ہمیشہ کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔ اسطرح پشاور کے ایک معروف نجی ہسپتال کے مالک کو بھتہ نہ دینے پر کراچی سے پشاور مستقل شفٹ ہونا پڑا کیونکہ اسے قتل کی دھمکیاں مل رہی تھی۔


بیورو آف امیگریشن اینڈ اورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کیمطابق 2013ءسے 2017ءتک پچیس ہزار سے زائد انجینئرز، آٹھ ہزار سے زائد ڈاکٹرز اور ساڑھے چار ہزار سے زیادہ اساتذہ نے اچھے اور پرسکون مستقبل کی خاطر ملک چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔ ڈیڑھ لاکھ مکینک اور تہتر ہزار سے زائد ٹیکنیشن بھی بیرون ملک شفٹ ہو گئے۔ گزشتہ ایک دہائی میں صرف انجینئرنگ، تدریس اور صحت کے شعبے سے منسلک ساٹھ (60) ہزار سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے پاکستان کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دیا، جن میں 67 فیصد انجینئر، 20 فیصد ڈاکٹراور 12 فیصد اساتذہ شامل ہیں۔ پاکستان میں برین ڈرین کا رحجان اب خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے، جنکے ذمہ داروں میں ہمارے حکمرانوں کیساتھ ساتھ ہماری اشرافیہ بھی ہے۔

 

ہماری بڑی بڑی معتبر شخصیات یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ترقی یافتہ ملک میں مستقل سکونت اختیار کر لیتی ہیں اور مرنے کے بعد وصیت کے مطابق پاکستان میں اسکی نعش کو لاکر دفنا دیا جاتا ہے۔ اسلئے تو روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کے متعلق طنزاً کہا ہے کہ "پاکستان بڑے لوگوں کیلئے قبرستان ہے"۔برین ڈرین کے متعلق ہماری حکمرانوں کی بے توجہی بھی قابل ذکر ہے۔

 

جب ایک سابق وزیراعظم سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے نے سوال کیا کہ پاکستان میں عدم تحفظ اور بیروزگاری کیوجہ سے تعلیم یافتہ طبقہ ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں، تو وزیراعظم صاحب کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی بھی کچھ عجیب سی تھی، اس نے کہا کہ پھر کیوں جلدی نہیں جا رہے۔ ہمارے حکمران بھی صرف وعدوں پر وعدے کرتے ہیں لیکن پھر پورا نہیں کرتے۔ ماضی میں عمران خان صاحب کی جوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ اب اپوزیشن جماعتوں میں ایک مذاق بنا ہوا ہے۔ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو دو کشتیوں میں سوار نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنی اس ایک کشتی (پاکستان) کو مضبوط کرنا چاہئے، کیونکہ چاہے ہم جہاں کہیں بھی جائیں ان کی اور ہم سب کی شناخت بطور پاکستانی ہی ہوتی ہے۔