کراچی رحم کا متقاضی

 اس سال کراچی میں مون سون بارشوں نے گزشتہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ مون سون کے چوتھے مرحلے تک 89 سال کا ریکارڈ ٹوٹ چکا تھا۔ مگر بعد میں مزید بارش نے اسے بھی مات دے دی۔ ویسے تو کراچی میں تین تین، چار چار سال تک بارشیں نہیں ہوتی تھیں مگر موسمی تغیر کی وجہ سے گزشتہ چند دہائیوں سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس سال چونکہ لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے فضائی آلودگی کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اس لئے موسمی تبدیلی بھی تیزی سے رونما ہونے لگی ہے۔ اس سال ایسی خوفناک بارشیں برسیں جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ کراچی پر ماضی میں کئی آفتیں آئیں لیکن کراچی والوں نے قدرت کے ہاتھوں ایسی تباہی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پہلے تو بارشوں میں کچی آبادیاں بہا کرتی تھی لیکن اس بار تو ڈی ایچ اے کی بھی خیر نہ رہی اور یہی وجہ تھی کہ اس سیلاب کو قومی ایمرجنسی قرار دیا گیا۔

 ماضی میں ناجائز قبضوں، شہری سہولیات، ماحولیات کی بربادی، بااثر سٹیک ہولڈرز کی قبضہ گیری اور باہمی ٹکراو¿ کے ہاتھوں جو ہوا اسکا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے میگا شہروں کا سنبھالنا مشکل ہو چلا ہے۔ مگر جدید خطوط پر استوار سائنس اور ٹیکنالوجی، موثر منصوبہ بندی اور اچھی گورننس کے ذریعے درپیش مسائل کا حل نکالا جا رہا ہے۔ لوگ بھی اب بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں اور قصبات کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن کراچی کا معاملہ ہی الگ ہے۔ جتنے یہاں پر گوں ناگوں گروپس ہیں، جو اسے کاسموپولیٹن بناتے ہیں اتنے ہی پیچیدہ مسائل۔ کبھی مچھیروں، دستکاروں اور تاجروں کی ایک خاموش بستی ہوا کرتی تھی۔ اسکی آبادی 1947ءمیں چار لاکھ کے لگ بھگ تھی مگر اب اسکی آبادی تیزی سے چھلانگیں مارتی پھیلتی چلی جا رہی ہے۔

 جو انفراسٹرکچر انگریز نوآبادکاروں نے تعمیر کیا تھا، چند دہائیوں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ تلے یہ دب کر بے بس ہو گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آبادی کے ارتکاز کے حساب سے کراچی میں فی مربع میل تریسٹھ (63) ہزار نفوس ہیں اور ہر سال باہر سے 45000 ہزار افراد کراچی میں سکونت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اور اب کراچی منی پاکستان کہلایا جا رہا ہے کیونکہ یہاں پر ہندوستان سے مہاجر اور دوسرے صوبوں سے پختون، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی، بنگلہ دیشی، بہاری، افغانی اور نہ جانے کون کون آباد ہو گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر معاشی ہجرت ہے جو لوگوں کو بڑے شہروں کی طرف کھینچتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کیوجہ سے باہر سے آئے ہوئے مزدور طبقے نے گندے نالوں اور سرکاری زمینوں پر جھونپڑیاں اور مکانات بنوائے، جسکی وجہ سے گندگی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب سے کچرے کا شور زیادہ ہوا ہے اور حکومت کو طعنے ملنا شروع ہوئے ہیں

اس طرف دینی شروع کی ہے تاہم ابھی تک صرف سات سے آٹھ ہزار ٹن کچرا ا±ٹھایا جا چکا ہے، جبکہ ایک اندازے کے مطابق 16 ہزار ٹن کچرا شہر کے مختلف حصوں میں پڑا ہے، جسکی وجہ سے ندی نالوں میں پانی کا بہاو¿ متاثر ہو رہا ہے۔بے ہنگم آبادی نے محکمہ صفائی کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں کیونکہ بلدیہ کی گاڑیاں تنگ گلیوں کیوجہ سے کچرا ا±ٹھانے کے قابل نہیں۔گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کرکے کراچی کی حالت بدلنے کیلئے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ اس پیکیج میں قلیل المدتی اور طویل المدتی منصوبوں کی تکمیل شامل ہے اور یہ سارے منصوبے تین سال میں مکمل کیے جائینگے۔ ان منصوبوں کو مختلف ترجیحات میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔ گرین لائن اور سرکلر ریلوے کے منصوبوں کیلئے 512 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

 ان منصوبوں پر عملدرآمد اور انکی مانیٹرنگ کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں وفاق اور صوبہ سندھ کے نمائندے شامل ہیں۔ کراچی میں اس وقت پانی کے ساتھ ساتھ کچرے کی صفائی ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے کیونکہ اسکی وجہ سے سیلابی پانی کے بہاو¿ میں رکاوٹ سے آبادی کا بہت بڑا حصہ تباہ ہو چکا ہے۔ نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے کے ذریعے کی جائیگی۔فوج چونکہ ایک منظم ادارہ ہے اور اسکے پاس افرادی قوت اور ذرائع بھی موجود ہیں۔ اس لئے اس ادارے کو کراچی کی حالت بدلنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔بارشوں نے کراچی کے پورے نظام کو درہم برہم کر دیا ہے، جسکی دوبارہ آبادکاری پر کافی عرصہ اور خطیر رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر دن رات کام کرکے ہی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔ مگر افسوس کہ جس دن وزیراعظم صاحب نے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا، اسکے اگلے ہی دن دونوں حکومتوں نے توپوں کے رُخ ایک دوسرے کی طرف کردئیے اور سیاسی بیان بازی شروع ہو گئی جبکہ دونوں حکومتوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کا سہولت کار بننے کی ضرورت ہے۔ ذمہ داروں کوپوائنٹ سکورننگکی بجائے ہوش کا مظاہرہ کرنا ہوگاکیونکہ یہ کراچی کے کروڑوں باسیوں کی زندگی و موت اور معاشی قتل و زیست کا سوال ہے۔

 آپ بیشک اپنے لیے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کریں لیکن عوام کی زندگی اور موت پر نہیں، کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے سیاسی نہیں۔ آپ نے ثابت کرنا ہے کہ ہمیں عوام کے مفاد ات عزیز ہیں نہ کہ پوائنٹ سکورنگ۔ ورنہ تو آنے والے انتخابات میں کراچی کے عوام دونوں کو مسترد کردینگے کیونکہ اس وقت انکی جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ پوائنٹ سکورنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض مبصرین کے مطابق دونوں طرف ایسے عناصر موجود ہیں جو نہیں چاہتے کہ وفاق اور سندھ میں اس عظیم مقصد کیلئے ہم آہنگی ہو اور وہ اس لئے بھی کہ انکی دال روٹی کا انحصار دونوں حکومتوں کی لڑائی پر ہے۔ایسے عناصر سے دست بستہ التماس ہے کہ بس اب بہت ہو چکا، اب خدارا کراچی کے عوام پر رحم کریں۔ خدا نے ایک سنہرا موقع فراہم کر دیا ہے ، اس سے عوام کو فائدہ اٹھانے دیں۔ عوام تو آپکی بیان بازی کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دوسرے علاقے، خیبرپختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں بھی مون سون کی موجودہ بارشوں نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

وہاں کے عوام بھی کرب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ جانی نقصانات کے علاوہ وہاں کافی سارے گھر یا تو مکمل تباہ ہو چکے ہیں یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں‘ خیبرپختونخوا کے بالائی اضلاع میں بارشوں کیوجہ سے بہت سارے گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ ان علاقوں میں بھی جانی نقصان کے علاوہ باغات اور کھڑی فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اسوقت تو وفاقی حکومت کی نظریں صرف کراچی پر مرکوز ہیں مگر تباہ حال خیبرپختونخوا کے عوام بھی امداد کے مستحق ہیں۔ انکی بھی داد رسی ہونی چاہئے۔بارشوں کے باعث ضلع صوابی کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں موسٰی بانڈہ میں چھت گرنے سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ نقصان تو ہر حال میں نقصان ہی ہے مگر جانی نقصان کا ازالہ اگرچہ ممکن نہیں تاہم جن گھرانوں کے افراد جان سے گئے ہیں انکی سب سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے۔