کسی محکمے( سرکاری و نجی ) میں ملازمت یا پڑھائی کے دوران کسی فرد کو بلاوجہ تنگ کرنا، اُسے ذہنی و جسمانی طور پر تکلیف دینا یا اس سے زبردستی تعلق قائم کرنا”کام کی جگہ میں ہراسگی“ یا”وَرک پلیس ہریسمنٹ“ کہلاتا ہے۔ورک پلیس ہیریسمنٹ میں متعلقہ محکمے کا انچارج اپنے کچھ مخصوص عزائم کی تکمیل کیلئے کسی ماتحت کو ذہنی یا نفسیاتی دباو¿ میں لاتا ہے۔ اس مسئلے پر بیسویں صدی عیسوی کے آخر میں بہت زیادہ تحقیق ہوئی اور بہت سے تجربات و مشاہدات کا جائزہ لیا گیا۔ اس ظلم کو روکنے کیلئے وقتاً فوقتاً مختلف قوانین پاس ہوئے۔ یہ عمل اب قانوناً جرم بن گیا ہے، جسکے لیے بہت سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں اسطرح کے واقعات رونما ہونے پر انکوائری کمیٹی کی طرف سے بہت چھان بین کے بعد جرم ثابت ہونے پر کسی بھی مرد یا عورت کو نوکری سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔اسکے متعلق تو ترقی یافتہ ممالک میں پہلے سے سخت قوانین موجود ہیں لیکن پاکستان میں یہ قانون پہلی بار 2010ءمیں پاس ہوا۔ اسطرح کے حالات زیادہ تر خواتین کو درپیش ہیں لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں قدامت پسندی کا رجحان شدید ہے اسلئے شرم و حیا کیوجہ سے اسطرح کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ اب اس کیلئے ملکی سطح پر وفاقی محتسب اور ہر صوبے میں محتسب ادارے قائم ہو چکے ہیں اور انہیں شکایات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک کیس میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت چلا جس میں ماڈل میشا شفیع نے اداکار و گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کرکے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا لیکن عدالت نے اسکا کیس عدم ثبوت کی بناءپر برخاست کر دیا اور کہا کہ چونکہ یہ معاملہ مالک اور ملازم کا نہیں ہے اسلئے بھی یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے اور ورک پلیس ہیریسمنٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔پاکستان میں مردوں اور خاص کر خواتین کے ساتھ کام کی جگہ میں ہراسگی کے کیس بہت جگہوں پر ہو رہے ہیں لیکن چونکہ قانون ابھی نیا بنا ہے اسلئے اس سلسلے میں ابھی عوام کو پوری جانکاری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے میڈیا مہم اور آگاہی پروگرام بھی شروع ہونا چاہئے تاکہ اس کرب سے دوچار خواتین سامنے آسکیں اور انہیںانصاف مل سکے۔رخشندہ ناز وہ پہلی خاتون ہیں جنہیں پچھلے سال خیبر پختونخوا میں محتسب ادارے برائے انسدادِ ہراسگی کیلئے بطور سربراہ چنا گیا ہے، جو پشاور سیکرٹریٹ میں ہے۔ میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہر ادارے میں ہراسگی کی روک تھام کیلئے ذیلی کمیٹیاں تشکیل ہوں جو صوبائی محتسب ادارے کو رپورٹ پیش کر سکیں۔ انکے مطابق ان کمیٹیوں میں ادارے کے ایسے ایک عورت اور دو مرد شامل ہونگے جو غیر جانبدار ہوں اور کسی فرد کی عدم دستیابی پر صوبائی محتسب ادارے کے کسی فرد کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔2010ءکے قانون انسدادِ ہراسگی کے مطابق جس کسی کے ساتھ (چاہے وہ مرد ہو یا عورت ) کام کی جگہ میں ہراسگی کا معاملہ درپیش ہو وہ اپنے ادارے میں موجود انسدادِ ہراسگی کمیٹی کو ملزم کے خلاف تحریری شکایت جمع کرا سکتا/سکتی ہے۔ ملزم سات دن کے اندر اندر اپنا تحریری بیان جمع کرائے گا اور انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو گا۔ پیش نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی یکطرفہ فیصلہ سنائے گی۔ کمیٹی ایک مہینے کے اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہو گی۔ جرم ثابت ہونے پر ملزم کو نوکری سے برخاست کرنا یا ترقی روکنا، تین سال قید اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔خیبرپختونخوا محتسب ادارہ برائے انسدادِ ہراسگی نے ابتک 1200 خطوط مختلف اداروں کو ارسال کرکے تنبیہ کی ہے کہ وہ جلد از جلد سال 2010ءکے انسداد ہراسگی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے اداروں میں مستقل کمیٹیاں بنائیں جو اسطرح کے واقعات کی روک تھام کر سکےں۔ محتسب ادارے کے ترجمان کے مطابق میڈیا ہاو¿سز، عدالتوں، وکلاءدفاتر، گورنر ہاو¿س، صوبائی اسمبلی اور دیگر بہت سارے اداروں کو خطوط بھیجے گئے ہیں جن میں تاکید کی گئی ہے کہ جلد از جلد انکوائری کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور انہیں فعال کیا جائے۔2018ءمیں اس طرح کا ایک واقعہ ضلع مردان میں پیش آیا جس میں بھائی کی غلطی کی وجہ سے گھر والوں کی دشمنی میں پڑنے پر صلح میں اپنی بہن کو بطور ”سوَرہ“ یعنی نکاح میں دشمن شخص کو دیا تو شکایت موصول ہونے پر کے پی محتسب ادارہ حرکت میں آیا اور سماجی کارکن ثمرمن اللہ اور پولیس کی مدد سے اس لڑکی کے بھائی کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ شریعت اور حکومت پاکستان کے قانون کے مطابق اسطرح کی رسوم جاہلانہ اور غیر منصفانہ ہیں جو قابل سزا ہیں۔محتسب ادارے کی سربراہ رخشندہ ناز کے مطابق سب سے زیادہ شکایات سنٹرل جیل پشاور میں کام کرنے والی خواتین کی جانب سے موصول ہوئیں جنہیں اپنے سینئر مرد حضرات ہراساں کرتے تھے لیکن جب انہوں نے تحقیقات کا آغاز کیا تو وہ کافی حیران ہوئیںکیونکہ ان افسران کو بچانے کیلئے بہت سی اہم شخصیات متحرک ہوئےں اور کئی اہم شخصیات بطور سفارشی محتسب ادارے کے چکر کاٹنے لگےں۔ستمبر 2020ءمیں حکومت نے اس قانون میں مزید پیش رفت کی ہے اور قومی اسمبلی میں ایک اور بل رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی سربراہی میں پیش کر دیا ہے، جسکا مقصد اس قانون کو مزید بہتر اور فعال کرنا ہے۔کچھ عرصہ پہلے اسطرح کے واقعات گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں پیش آئے تھے جس میں طالبات کئی سالوں سے جنسی طور پر ہراساں ہوتی آرہی تھیں۔ یہ طالبات اپنے تھیسس ریسرچ کے سلسلے میں ایک پروفیسر سے منسلک تھیں۔ یہ صاحب ان طالبات کو پروموٹ کرنے اور تھیسس پاس کرنے کے عوض ان سے تعلقات استوار کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان میں سے کئی طالبات نے ہمت کرکے یونیورسٹی انتظامیہ کو اسکے خلاف تحریری شکایت بھی کی لیکن چونکہ پروفیسر اپنی یونیورسٹی میں کافی بااثر شخص تھے اسلئے اسکے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکی۔ آخرکار ایک میڈیا ہاو¿س کیلئے کام کرنے والے صحافی نے اپنی ٹیم کی مدد سے اس پروفیسر کی اپنی ایک طالبہ سے نازیبا گفتگو کی ویڈیو ریکارڈ کروائی۔ یہ طالبہ دراصل چینل کی صحافی خاتون تھیں۔ پولیس نے اس پروفیسر کو پھر گرفتار کر لیا اور یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے نوکری سے فارغ کردیا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ 2017ءمیں پیش آیا تھا جب ایک بچی کی شکایت پر حیات آباد پشاور کے نجی سکول کے پرنسپل کو پولیس نے گرفتار کیا۔ یہ شخص بچوں اور لیڈی اساتذہ سے جنسی ہراسیت و زیادتی کا مرتکب تھا جس کو پشاور سیشن کورٹ کے جج نے 105 سال قید جبکہ 10 لاکھ چالیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔اس قسم کے مسائل اب بھی محکمہ صحت، تعلیم اور نجی اداروں جیسے این جی اوز وغیرہ میں خواتین کو درپیش ہیں مگر خاندانی روایات اور عزت نفس کیوجہ سے یہ خواتین خاموش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محتسب ادارہ اپنی مجوزہ کمیٹیوں کو جلد از جلد قائم کرکے انہیں فعال بنائے۔