شیر علی آفریدی، گمنام مجاہد

دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقوام عالم نے آزادی اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر حاصل کی ہے۔ لمبی لمبی تحریکوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ مگر آخر کار کامیابی حق کو ہی حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح کی تحریک آزادی شمالی افریقہ کے ملک الجزائر/الجیریا میں اسوقت زور پکڑ گئی جو وہاں کے مسلمان عوام نے فرانسیسی تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے لبریشن فرنٹ قائم کرکے 1954ءسے 1962ءتک چلائی۔ اس دوران ان پر بے تحاشا مظالم ڈھائے گئے۔ فرانسیسی فوج تحریک آزادی کے سرگرم افراد کو پکڑ پکڑ کر جنگلوں میں درختوں کیساتھ اسطرح باندھتی تھی کہ انکی ناف کے اوپر جنگلوں میں پائے جانے والے لمبے نوک دار چوہے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے، جو ناف کو کاٹ کر پیٹ کو اندر سے کھا جاتے تھے۔ اور یوں ہزاروں آزادی پسندوں کو ہلاک کرتے رہے۔ مگر پھر بھی وہ تحریک آزادی کو دبا نہ سکے۔ جیسے جیسے فرانسیسی فوج کے مظالم بڑھتے گئے، تحریک آزادی میں جان پیدا ہوتی رہی اور آخرکار فرانسیسی راج کا خاتمہ کر دیا گیا۔دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے دو بہادر جوانوں نے امریکی بحری بیڑے کی چمنی میں چھلانگ لگا کر پورے بیڑے کو تباہ کر دیا تھا۔ ایسی کئی ایک مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مگر آج ہم ایک ایسے سپوت کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جسکا علم شاید بہت کم لوگوں کو ہو گا۔ یہ شخصیت خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے ایک بہادر جوان شیر علی آفریدی ہےں جن کا تعلق آفریدیوں کے کوکی خیل قبیلے سے تھا۔ یہ نوجوان کمشنر پشاور کے گھر میں نوکر تھا اور اس نے اپنے ایک عزیز کو کمشنر کے دفتر کے قریب پرانی دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا تھا۔ یہ ایک نہایت شریف انسان تھا لیکن پختون روایات میں قتل کا بدلہ قتل لے کر ہی پورا کیا جاتا ہے۔ اسلئے اس نے موقع ملتے ہی اپنے دشمن کو پشاور چھاو¿نی میں واقع کمپنی باغ کے سامنے جو کمشنر ہاو¿س کے بہت قریب ہے، قتل کیا۔ اسطرح کا قتل کسی کی آنکھ سے کیسے اوجھل رہ سکتا تھا۔ شیر علی کو فوراً گرفتار کر لیا گیا اور اسکے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ شیر علی ایک ایسا آدمی تھا جو ہر کسی کا تابعدار رہتا تھا اور اپنی ڈیوٹی بڑی ایمانداری کیساتھ کرتا تھا۔ بنگلے میں موجود ہر شخص اسکی عزت کرتا تھا۔ انگریز افسران اس سے خوش تھے۔ شیر علی کو پکا یقین تھا کہ ماضی کی خدمات کیوجہ سے انگریز افسران ان سے نرمی کرینگے اور ممکن ہے کہ اسے رہائی بھی مل جائے۔ مگر اسکی توقعات کے برعکس عدالت نے 2 اپریل 1867ءکو اسے موت کی سزا سنائی۔ سزائے موت ملنے کے بعد جیل کے اندر اسکا مجموعی رویہ اچھا تھا کیونکہ فطرتاً وہ ایک شریف انسان تھا۔ مزید یہ کہ امبیلا کی جنگ میں اس نے انگریزوں کی بڑی خدمت کی تھی۔ انہی خدمات کی بناءپر اسکی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور اسے جزائر انڈمان یا کالا پانی بھیج دیا گیا۔ وہاں پر انگریزوں کے وحشیانہ سلوک دیکھ کر اس کے دل میں نفرت کا لاوا اُبلنے لگا۔ اس نے بدلہ لینے کیلئے کسی اعلیٰ انگریز افسر کو جان سے مارنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ شیر علی صوم و صلواة کا پابند مذہبی شخص تھا۔ انکے افسران نے نوٹ کیا تھا کہ وہ دن میں پانچ وقت نماز کی ادائیگی کیساتھ ساتھ باقاعدگی سے روزے بھی رکھتا تھا۔ جیل میں ملازمت کے دوران وہ تھوڑی بہت رقم بھی کماتا تھا جسے وہ جیل میں یتیم قیدیوں پر خرچ کرتا تھا۔ اس عمل سے وہ قیدیوں میں بہت مقبول ہو گیا۔ یہاںتک کہ جیل کے افسران بھی اس سے عزت سے پیش آتے تھے اور اس کے ساتھ سخت رویہ نہیں اپناتے تھے۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ جیل میں قیدیوں کیلئے بطور حجام کام کرنے لگے۔فروری کی 8 تاریخ سال 1872ءکی رات جزائر انڈمان کیلئے تاریخی رات تھی۔ یہ جزائر خلیج بنگال میں واقع ہیں۔ یہاں پر خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ تحریک خلافت اور دوسرے دینی علماءو مجاہدین کے بہت سارے اکابرین انہی جزائر میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے آرہے تھے۔ یہ قیدی اپنی پوری زندگی سخت مشقت کرکے گزارتے تھے۔ قیدیوں اور ان پر مامور سیکورٹی عملے کے علاوہ کسی کو بھی ان جزائر پر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ جزائر میں قیدیوں کیساتھ ناروا سلوک کے خلاف کئی جلسے جلوس ہوئے لیکن اسکا کوئی اثر نہیں ہوا۔وائسرائے ہند لارڈ میو (Mayo) کو جب خبر پہنچی تو اس نے قوانین میں تبدیلی کرکے کچھ نرمی پیدا کی۔ اس سلسلے میں وائسرائے نے جزائر کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا۔ 8 فروری 1872ءکی صبح لیڈی میو، دوسرے اعلیٰ حکام اور سیکیورٹی عملے کے ہمراہ وہ بحری جہاز کے ذریعے جزائر انڈمان پہنچ گئے۔ انکا بہت بڑا استقبال ہوا کیونکہ کسی بڑے انگریز افسر کا ان جزائر کا پہلا دورہ تھا۔ جزائر کا نظارہ دیکھنے کیلئے اسے ایک پہاڑی ٹھیلے پر لیجایا گیا۔ اس پہاڑی کا نام "کوہ بیرینٹ" تھا۔ وائسرائے ہند کو جگہ بہت اچھی لگی اور وہ شام دیر تک وہاں ٹہرا رہا۔ واپسی پر اسکا نجی سیکریٹری اور سیکورٹی کا عملہ اس کی دائیں اور بائیں جانب چل رہا تھا‘ روشنی کا انتظام کیا گیا تھا۔ وفد نے چھوٹی لانچ کے ذریعے رائیل نیوی کے جہاز تک جا کر رات گزارنا تھی۔ چونکہ شیر علی پر سب کو اعتماد تھا اسلئے اسکے آنے جانے کو سیکورٹی اہلکاروں نے نوٹ نہیں کیا۔محقق فیروز آفریدی کی تحقیق کے مطابق شیر علی موقع کو غنیمت جان کر چھوٹی لانچ کے نیچے پانی میں چھپ گیا اور سانس لینے کیلئے ایک بانس کا سہارا لیا۔ جیسے ہی وائسرائے لانچ میں سوار ہوا، شیر علی آفریدی نے پیچھے سے سوار ہو کر وائسرائے پر تیز نوکیلے چاقو نما آلے سے کئی وار کئے۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہوا، جسکی وجہ سے لائٹیں بھی بجھ گئیں۔ سیکورٹی والوں نے شیر علی کو قابو کیا اور اسے مارنے لگے، مگر وائسرائے کے نجی سیکریٹری نے اسے بچا لیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس کی ایماءپر اس نے حملہ کیا ہے۔ اسی دوران وائسرائے کے زخموں سے کافی خون بہہ چکا تھا جسکی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکا۔ لارڈ میو جسمانی طور پر بہت مضبوط آدمی تھا جبکہ شیر علی آفریدی دبلا پتلا تھا۔ جب ڈاکٹروں نے وائسرائے میو کے مردہ جسم کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ پیٹھ کا زخم اتنا گہرا تھا کہ دل تک جا پہنچا تھا۔وائسرائے ہند لارڈ میو کی موت برطانوی حکومت کیلئے ایک بہت ہی بڑا صدمہ تھا ”سرگزشت مجاہدین“ کتاب میں غلام رسول مہر نے اس واقعے کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ شیر علی آفریدی کے خلاف دوسرے قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا جسمیں انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی 11 مارچ 1873ءکو جب اسے پھانسی کے تختے پر لٹکانے کیلئے لایا گیا تو وہ بہت مطمئن اور پرسکون دکھائی دے رہا تھا اور باآواز بلند کہہ رہا تھا کہ وائسرائے کو قتل کرنے سے پہلے مجھے اپنے اس انجام کا بخوبی علم تھا وہ مسکرا رہا تھا اور دو دفعہ اس نے کلمہ شہادت پڑھا البتہ تیسری مرتبہ وہ مکمل نہ کر سکا کیونکہ پھانسی کی گرہ مضبوط ہو چکی تھی۔