نئی دہلی: بھارتی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے سیارہ زہرہ کی فضاؤں میں زندگی سے تعلق رکھنے والا ایک اہم سالمہ ’’گلائسین‘‘ دریافت کرلیا ہے۔
یہ سادہ ترین امائنو ایسڈ ہے جو زمینی جانداروں کے تیار کردہ پروٹینز میں عام موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیارہ زہرہ پر گلائسین کی دریافت کو زندگی کا ایک اور اہم ثبوت قرار دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ قدرتی طور پر تقریباً 500 امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں مگر ان میں سے صرف 20 ایسے ہیں جو ڈی این اے میں موجود ہدایات (جینیٹک کوڈونز) پر عمل کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ گلائسین بھی انہی میں سے ایک ہے۔
بھارتی ماہرین کا یہ تحقیقی مقالہ ’’آرکائیو ڈاٹ آرگ‘‘ (ArXiv.org) کی پری پرنٹ ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک اس دعوے کو دیگر ماہرین نے درست ہونے کی باقاعدہ سند نہیں دی ہے۔
گزشتہ ماہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے سیارہ زہرہ کی فضاؤں میں زندگی سے تعلق رکھنے والی ایک اہم گیس ’’فاسفین‘‘ کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر زندگی کے وجود سے متعلق بحث ایک بار پھر تازہ ہوگئی۔
تاہم بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ زہرہ کی فضاؤں میں فاسفین گیس ممکنہ طور پر وہاں کے آتش فشانوں سے خارج ہوئی ہوگی، لیکن یہ بھی صرف ایک امکان ہے جس کی تصدیق یا تردید ہونا ابھی باقی ہے۔
اسی تسلسل میں مدناپور سٹی کالج، مغربی بنگال کے اریجیت منّا اور منگل ہزرا، اور انڈین سینٹر فار اسپیس فزکس، کولکتہ کے سبیاساچی پال نے اپنی مشترکہ تحقیق میں کہا ہے کہ یہ دریافت انہوں نے سیارہ زہرہ کے طیفی مطالعات (اسپیکٹرل اسٹڈیز) کی بنیاد پر کی ہے۔
ان کی تحقیق کے مطابق، سیارہ زہرہ کے خطِ استوا (ایکویٹر) کے قریبی گلائسین کی موجودگی سب سے نمایاں ہے جبکہ قطبین (پولز) پر یہ امائنو ایسڈ بالکل موجود نہیں۔
یاد رہے کہ سیارہ زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت سیکڑوں ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے، لہٰذا وہاں تو زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن زہرہ کی سطح سے 48 تا 60 کلومیٹر بلندی پر گھنے بادلوں کا درجہ حرارت منفی 1 ڈگری سینٹی گریڈ سے 93 ڈگری سینٹی گریڈ تک نوٹ کیا گیا ہے جو زندگی کے وجود میں آنے اور ارتقاء پذیر ہونے کےلیے خاصا مناسب درجہ حرارت بھی ہے۔
اپنے ریسرچ پیپر میں بھارتی سائنسدانوں نے سیارہ زہرہ پر زندگی کی موجودگی کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے شاید اس سیارے پر زندگی کا ارتقاء اُس ابتدائی مرحلے پر ہے جہاں یہ زمین پر آج سے چار ارب سال پہلے تھا۔
اگرچہ یہ دعویٰ بہت جاندار ہے لیکن اسے تب تک قابلِ بھروسہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ جب تک دیگر ماہرین بھی اس کا تنقیدی جائزہ لے کر اسے درست قرار نہ دے دیں۔