اسلام آباد: سال 19-2018 کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ میں آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) نے ٹیکس وصولیوں میں ایک کھرب 66 ارب ساڑھے 5 کروڑ روپے کے تضاد سے پردہ اٹھایا ہے اور اس تضاد کو رپورٹ میں 'چوری' کہا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل نے ایک ایسا سسٹم تشکیل دینے کی تجویز دی ہے جو سیلز ٹیکس ریٹرنز کے ڈیٹا کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس ریٹرنز میں فراہم کردہ ڈیٹا میں موجود تضادات کی نشاندہی کرے اور ڈیوٹی، ٹیکس کی وصولی کے علاوہ داخلی کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے قانونی دفعات کی درخواست کرے۔
رپورٹ میں ان پٹ ٹیکس کے ناقابل قبول دعوؤں کو روکنے اور اس کے سافٹ ویئر سسٹم کو دیگر محکموں کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے سسٹم میں توثیق کی آن لائن نگرانی متعارف کروانے کی تجویز بھی دی گئی تا کہ غیر واضح سرمایہ کاری کی شناخت کی جاسکے۔
آڈٹ رپورٹ میں قابل ٹیکس سپلائیز اور سروسز کے 199 کیسز میں ایک ارب 66 کروڑ 47 لاکھ روپے ٹیکس کی عدم وصولی کا انکشاف کیا گیا۔
اس کے علاوہ سیلز ٹیکس رینٹرنز اور انکم ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کردہ سیلز ٹیکس میں تضاد کی وجہ سے 77 کیسز میں سیلز ٹیکس کی مد میں 5 ارب 70 کروڑ 60 لاکھ روپے کے کمی سامنے آئی۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر 188 کیسز میں حکومت کا مقرر کردہ 5 ارب 28 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ریونیو وصول کرنے میں ناکام رہا۔
اس کے علاہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے قانونی شرائط پوری کیے بغیر 255 کیسز میں ناقابل قبول ان پٹ ٹیکس کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دی جس سے 5 ارب 65 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 536 کیسز میں 8 ارب 96 کروڑ 40 لاکھ روپے کے ٹیکس کریڈٹ کی غلط ایڈجسٹمنٹ کی گئی اور 447 کیسز میں 7 ارب 16 کروڑ 20 لاکھ روپے کا کم از کم ٹیکس عائد نہیں کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 1080 کیسز میں قبضے میں لی گئی اشیا کے عدم تصرف کی وجہ سے 3 ارب 29 کروڑ روپے کی آمدن پھنس گئی اور 6 ہزار 874 کیسز میں 2 ارب 56 کروڑ 3 لاکھ روپے کے ویلیو ایڈیشن ٹیکس کا ادراک نہیں کیا۔
اس کے علاوہ 3 ہزار 54 کیسز میں درآمدی اشیا کی غلط کلاسفکیشن کی وجہ سے 89 کروڑ 63 لاکھ 20 ہزار روپے کے ریونیو کا مکمل ادراک نہیں کیا گیا۔