مشہور امریکی سیاہ فام انقلابی رہنما میلکم ایکس نے غلاموں کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پہلی قِسم ”فِیلڈ سلیو“ اور دوسری قِسم”ہاو¿س سلیو“۔ اس نے اسکی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ فِیلڈ سلیو وہ غلام ہوتا ہے جسے جبراً غلام بنایا جاتا ہے اور جو جسمانی غلام کہلاتا ہے‘ اسطرح کے غلام سے جبری مشقت لی جاتی ہے مگر یہ شخص ہمیشہ آزادی کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے‘جب اسکا آقا بیمار ہوتا ہے تو یہ بیماری اس قسم کے غلام کیلئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اور وہ مالک کی بیماری کی آڑ میں اپنے لیے آزادی کی راہیں تلاش کرتا رہتا ہے۔ ہاو¿س سلیو وہ غلام ہوتا ہے جو ذہنی پستی اور احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے‘ جو اپنے مالک کی خدمت کو اپنا مقدر سمجھ کر راضی ہوا کرتا ہے‘جب آقا بیمار ہوتا ہے تو اسطرح کا غلام بہت پریشان رہتا ہے اور اپنے آقا کی خدمت میں اپنے لئے مسرت محسوس کرتا ہے اور اسکی صحت کیلئے دل سے دعا کرتا رہتا ہے۔ میلکم ایکس کے مطابق فِیلڈ سلیو ہزار درجہ بہتر ہے ہاو¿س سلیو سے، کیونکہ فیلڈ سلیو غلامی میں جدوجہد اور ہر قسم کی سختیاں برداشت کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو آزاد کرا لیتا ہے جبکہ ہاو¿س سلیو کی نسلیں غلام در غلام رہ جاتی ہیں۔ میلکم ایکس اپنے آپ کو بھی امریکی سفید فام لوگوں کا فیلڈ سلیو یعنی جسمانی غلام کہتا تھا۔ یہ انہی کی ہی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ جو وائٹ ہاو¿س امریکی گوروں نے سیاہ فام غلاموں کو استعمال کرکے بنایا تھا دو صدیوں کے بعد سیاہ فام باراک اوباما دو بار امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا۔ واضح رہے کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں اسلام قبول کیا تھا۔جو قومیں اپنے اسلاف کی قربانیاں، تاریخ، اپنی روایات اور زبان بھلا دیتی ہیں وہ ہمیشہ کیلئے غلامی کی دلدل میں پھنسی رہتی ہیں‘ اس غلامی سے چھٹکارا صرف و صرف اپنی زبان اور اپنے اسلاف (ہیروز) کی روایات کے فروغ میں مضمر ہے۔ امریکہ، روس، چین‘ جاپان‘یورپی ممالک اور جتنی بھی ترقی یافتہ قومیں اس وقت موجود ہیں‘ نے اپنی زبان میں دوسری قوموں کے سائنس اور ٹیکنالوجی کا ترجمہ کیا اور جدوجہد کرکے ترقی یافتہ ممالک بن گئے جبکہ ہم ابھی تک ترقی پذیر ممالک میں شامل ہیں‘ کیونکہ ہم انگریزی اور اردو کے درمیان پھنس گئے ہیں دو کشتیوں پرپاو¿ں رکھ کر سوار کبھی بھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ ہمیشہ ذلت کے سمندر گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں‘ میں ہرگز انگریزی زبان کا مخالف نہیں ہوں کیونکہ یہ ایک عالمی زبان ہے لیکن اپنی قومی زبان چھوڑ کر انگریزی زبان اور کلچر کو فروغ دینے کا ضرور مخالف ہوں‘ اسے سیکھنا بہت ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہمیں فارسی اور عربی زبان بھی سیکھنی چاہئے تاکہ ہماری نئی نسل کو اپنی اسلامی تاریخ کا بھی پتہ چل سکے اور ہمارا الگ اسلامی تشخص پھر سے زندہ ہو سکے‘موجودہ جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی اصل بنیاد قرون وسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں نے رکھی۔ ایک وہ بھی دور تھا جب یورپ سے لوگ سائنس سیکھنے قرطبہ‘ اُندلس (موجودہ سپین) جاتے تھے اور ایشیا سے لوگ بغداد، عراق جاتے تھے اور انہی کی زبانوں میں سیکھ کر جب واپس لوٹتے تھے تو اپنے ممالک میں انہی کتابوں کے اپنی زبان میں ترجمے کرا دیتے تھے اور یوں وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے تھے۔سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کا علمی زوال شروع ہوا کیونکہ ہلاکو خان نے مسلمان سائنسدانوں کی اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی ساری نادرکتابیں جلا کر دریا برد کر دیں۔ بیسویں صدی میں ایک طرف سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد بہت سارے مسلمان ممالک لسانی، گروہی اور مسلکی بنیادوں پر بٹ گئے تو دوسری طرف یورپی ممالک اپنے پرانے تعصب دور کرکے نیٹو اور یورپی یونین کی شکل میں جڑ گئے۔ہمارے زوال کی وجہ بہت سارے نظام ہائے تعلیم کا ملغوبہ بنا کر انہیں تعلیمی نصاب میں شامل کرنا ہے۔ سرکاری طور پر ہماری زبان ا±ردو ہے لیکن سارے دفتری کام، سکول، کالج اور یونیورسٹی کا نصاب انگلش میں ہے‘ اردو کی بجائے انگلش میں بات چیت پر لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں نئی نسل میں 75 فیصد بچوں نے صرف اپنی نصاب کی کتابیں پڑھی ہیں اور تاریخ کی کتابوں سے بالکل غافل رہے۔ایوب خان کے دور میں جب ملکہ برطانیہ الزبتھ نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تو اس وقت کے چیئرمین سینیٹ نے اسے خوش آمدید کہتے ہوئے مخاطب کیا کہ” میڈم وی آر سٹل یور لوئل سبجیکٹس“ ترجمہ: میڈم ہم ابھی تک آپ کے وفادار ماتحت ہیں ملک کی سربراہ اور مہمان کی حد تک عزت دینا تو ٹھیک تھا لیکن کسی غیر قوم کو اپنے اعصاب پر سوار کرنا ٹھیک نہیں، کیوں نہ ماضی میں ہم اسکے غلام رہے ہوں۔ اسی طرح ایوب خان کے پرسنل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اپنی ایک یادداشت میں لکھتے ہیں کہ میری تعیناتی جب مصر میں تھی تو میں نے حج کیلئے متعلقہ حکام کو انگریزی زبان میں درخواست دی۔ جب مجھے انٹرویو کیلئے بلایا گیا تو افسر مجاز نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے انگریزی زبان میں درخواست کیوں دی ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے عربی لکھنا نہیں آتی۔ اس پر مجھ سے افسر نے پوچھا کہ آپ کی قومی زبان کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس پر افسر مجاز نے مجھ سے پوچھا کہ آپکا انگریزی سے پھر کیا رشتہ ہے۔ اس پر مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوئی اور بامر مجبوری جواب دیا کہ غلام اور آقا کا رشتہ ہے‘ماضی میں ہمارے ایک وزیراعظم صاحب جب چین کے دورے پر گئے تو بات چیت کے دوران چینی ترجمان سے کہا کہ اپنے صدر سے کہئے کہ ہم سے انگلش میں بات کریں تو چینی صدر ماو¿زے تنگ نے کہا کہ چین گونگا نہیں ہے۔ مطلب کہ جب ہماری اپنی چینی زبان ہے تو پھر انگلش میں کیوں بات کروں۔ یہی ایک مرد آزاد کی نشانی ہوتی ہے۔اگرچہ اس دور میں”قحط الرجال“ ہے اور مرد آزاد کو ڈھونڈنا اور پانا مشکل ہے لیکن پھر بھی ڈھونڈنے سے ایسے لوگ دنیا کے ہر کونے میں آپ کو مل جائینگے۔ نیلس منڈیلا کی مثال ہی لے لیجئے جس نے 27 سال جنوبی افریقہ کی آزادی کیلئے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنے سیاہ فام افریقیوں کو انگلستان سے 1995ءمیں آزاد کراکے ہی دم لیا اور اپنے ملک کیساتھ ساتھ پوری دنیا کیلئے ہیرو قرار پائے۔اسی طرح محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے فلسفہ خودی(مرد آزاد) پر چل کر انگریزوں سے جہد مسلسل کے نتیجے میں آزادی حاصل کی اور پاکستان کی تعمیر کرکے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ لیکن یہ آزادی ہمیں آدھی ہی ملی ہے‘ ہم جسمانی طور انگریزوں سے آزاد تو ہو گئے ہیں لیکن ذہنی و نفسیاتی طور پر ہم ابھی تک انگریزوں کے زیر اثر ہیں ‘ہمیں اس ملک کیلئے ا±س مرد آزاد کی ضرورت ہے جسکا ذوق یقیں صرف و صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو، نہ کہ برطانوی یا امریکی سرکار پر۔