اسلامی طرز حکمرانی

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سلطنت ڈھائی لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی اور تاریخ اسلام میں ان کا شمار اعلیٰ پائے کے مدبرکے طور پر ہوتا ہے۔ انکی اصلاحات کے حوالے اب بھی دئیے جاتے ہیں۔ انکی سلطنت میں جتنی بھی ریاستیں شامل تھیں ان سب میں عوام کو انصاف بروقت اور تیزی سے ملا کرتا تھا۔ کہیں سے عوام کی شکایت انہیں نہیں ملی تھی۔ وہ اسلئے بھی کہ قانون کے نفاذ میں آپ ؓ کسی کے ساتھ کسی قسم کی بھی رعایت نہیں کیا کرتے تھے۔ مگر ان کی مالی حیثیت یہ تھی کہ آپ ؓ بیت المال سے وظیفہ لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مسجد نبوی میں جمعے کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی نے ا±ٹھ کر ان پر اعتراض کیا کہ آپکے کپڑے ضرورت سے زیادہ کھلے ہیں جبکہ ہمیں جو کپڑا بیت المال سے ملا ہے اس سے ہمارے کپڑے بمشکل ہی بن جاتے ہیں۔ امیر المو¿منین نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا کہ آپکا جواب یہ دیگا۔ بیٹا اُٹھا اور بھری مسجد میں عوام سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ چونکہ بیت المال سے ملے ہوئے کپڑے سے والد صاحب کے کپڑے پورے نہیں ہو رہے تھے اسلئے میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی والد صاحب کو دے دیا۔امیر المو¿منین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کا طریقہ کار تھا کہ اپنے متعین کردہ گورنروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے دورے کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مصر کے دورے کے دوران وہاں کے گورنر کے بارے میں عوام نے شکایت کی کہ گورنر صاحب فجر کی نماز کے بعد مسجد میں نہیں ٹھہرتے اور ہفتے میں ایک دن وہ گھر سے مکمل طور پر باہر نہیں آتے۔ اس پر امیر المو¿منین نے جواب دینے کیلئے گورنر کی طرف دیکھا۔ مصر کے گورنر نے جو جواب دیا وہ بھی بے مثال تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں فجر کے بعد فوراً اسلئے گھر جاتا ہوں کیونکہ میری بیوی بیمار رہتی ہے، انکے لیے دوائی اور بچوں کیلئے ناشتہ تیار کرتا ہوں۔ ہفتے میں ایک بار چھٹی اسلئے کرتا ہوں کہ چونکہ میں بہت دیر سے یعنی چالیس سال کی عمر میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ اسطرح میری عمر کا بیشتر حصہ کفر میں گزرا ہے، اسلئے سارا دن اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کیلئے عبادت کرتا ہوں۔ اسکے علاوہ اس دن بیوی اور بچوں کے کپڑے بھی دھوتا ہوں۔ جواب سن کر سوال کرنے والوں نے معافی مانگ لی۔ ایسی کئی دوسری مثالیں بھی تاریخ اسلام میں موجود ہیں۔نیپال کے ایک سابق وزیراعظم سوشیل کورالا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 2014ءکے عام انتخابات میں اسکی پارٹی”نیپال کانگریس“ کو اکثریت مل گئی تو اسے وزیراعظم کے منصب کیلئے نامزد کر دیا گیا۔ عہدے کا حلف لینے کے بعد جب وہ وزیراعظم ہاو¿س پہنچا تو پہلے اسے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ اپنا تعارف کرانے کے بعد وہ وزیراعظم ہاو¿س میں ایسی حالت میں داخل ہوئے کہ اس نے عام لوگوں سے بھی کم قیمت کپڑے پہن رکھے تھے ‘ فائلیں منگوائیں‘ بڑی محنت سے کام شروع کیا۔پرائیویٹ سیکرٹری نے کئی گھنٹے اپنے دفتر میں انتظار کے بعد چپڑاسی سے پوچھا کہ وزیراعظم صاحب نے مجھے بلایا تو نہیں۔ چپڑاسی نے شرمندگی سے کہا کہ ابھی تک تو نہیں بلایا۔ پورا دن گزر گیا، سرکاری کام ختم کرکے شام کو فائلیں بغل میں دباکر پرائیویٹ سیکرٹری کے حوالے کیں۔ وزیراعظم نے تمام عملے کو سختی سے منع کیا تھا کہ کوئی اسے خوش آمدید یا خدا خافظ کہنے کیلئے نہ آئے۔ ہفتہ بعد پرائیویٹ سیکرٹری نے وزیراعظم کو چٹ بھجوائی کہ وہ کسی سرکاری کام سے ملنا چاہتا ہے۔ چِٹ بھجوائے ہوئے دو چار منٹ ہی گزرے تھے کہ وزیراعظم خود ان کے کمرے میں آگیا اور ادب سے پوچھا بتائیے کیا کام ہے مجھ سے۔ پرائیویٹ سیکرٹری کی جان نکل گئی۔ ملک کا وزیراعظم اسکے کمرے میں آکر اس سے کام پوچھ رہا ہے۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا اور لجاجت سے کہا کہ سر قانون کے مطابق بطور وزیراعظم آپ نے اپنے اثاثے ظاہر کرنے ہیں۔ وزیراعظم نے پرائیویٹ سیکرٹری سے فارم لیا اور خاموشی سے اپنے دفتر چلا گیا۔ شام کو فارم واپس آیا تو سیکرٹری نے پڑھنا شروع کیا۔ اثاثوں کا کاغذ دیکھ کر سیکرٹری کی آنکھیں باہر آئیں۔ اس میں درج تھا کہ " میرے پاس کوئی گھر نہیں، کوئی گاڑی بھی نہیں اسلئے کہ میں بس میں سفر کرتا ہوں۔ کسی قسم کی کوئی جائیداد، پلاٹ، زیور، سونا وغیرہ بھی نہیں۔ جہاں تک زرعی زمین کا تعلق ہے وہ ساری میں خیرات کر چکا ہوں۔ میرا کسی بینک میں اکاو¿نٹ بھی نہیں ہے۔ البتہ میرے پاس تین موبائل فون ہیں جن میں ایک آئی فون ہے“۔نیپال جیسا ملک جہاں سیاست اور کرپشن لازم و ملزوم ہیں وہاں وزیراعظم کے ڈیکلریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونا اچھنبے کی بات تھی۔ پرائیویٹ سیکرٹری اگلے روز وزیراعظم کے دفتر اسلئے گیا کہ کہیں ان سے غلطی نہ ہوئی ہو مگر وزیراعظم نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ میں نے فارم کے نیچے دستخط بھی کیے ہیں۔ فکر نہ کریں میں ذمہ دار ہوں۔چند روز بعد اخبار میں خبر چھپ گئی کہ ہمارا وزیراعظم دنیا کا غریب ترین وزیراعظم ہے مگر اپوزیشن اس خبر سے متفق نہ تھی کہ کیسے ہو سکتا ہے ایک ایسا شخص جسکے خاندان میں تین وزیراعظم گزرے ہوں اور وہ مفلوک الحال ہو۔ ایک سرکاری دورے میں حکومت کی طرف سے انہیں 645 ڈالرز ملے مگر دورے کے اختتام پر ساری رقم سرکاری خزانے میں واپس جمع کرا دی۔بانی پاکستان محمد علی جناح صاحب بھی بطور گورنر جنرل ایک روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے تھے اور عمر کے آخری حصے میں اپنا بیشتر اثاثہ ریاست کے نام کر دیا تھا۔ جب انکی بیماری بڑھ گئی تو بلوچستان میں زیارت کے مقام پر ٹھہرائے گئے۔ اسی دوران انہوں نے کھانا بہت کم کر دیا۔ انکے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الہی بخش اور بہن فاطمہ جناح کو تشویش لاحق ہو گئی۔ آخر کراچی سے انکے ذاتی خانساماں کو بلایا گیا۔ خانساماں نے جو کھانا تیار کیا انہوں نے اچھی طرح کھایا۔ پوچھا آج کھانا کس نے تیار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ آپکے ذاتی خانساماں نے تیار کیا ہے۔ اسے جناح صاحب نے بلا کر پوچھا کہ کوئٹہ کیسے پہنچے، تو انہوں نے کہا کہ ریل گاڑی سے۔ پوچھا ٹکٹ خود خریدا۔ اس نے کہا نہیں، مجھے تو ٹکٹ سرکاری طور ملا۔ اس پر قائد اعظم بہت ناراض ہوئے اور جیب سے ٹکٹ کی رقم نکال کر اپنے سیکرٹری سے کہا کہ اسے سرکاری خزانے میں جمع کرا دو۔ خیبرپختونخوا کے سابق گورنر ارباب سکندر خان جس سوٹ کیس کے ساتھ گورنر ہاو¿س آئے تھے، گورنری سے ہٹائے جانے کے بعد اسی سوٹ کیس کے ساتھ اپنے گھر تہکال، پشاور چلے گئے۔اب جو حکومت چھوڑ کے جاتا ہے، اربوں ڈالرز بیرون ملک جمع کرکے جاتا ہے۔ کاش کوئی محب وطن اور عوام دوست پاکستانی قوم پر رحم کھا کر حکومت کرے۔