آزادی رائے‘مذموم عزائم

آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں مغربی انتہا پسندوں اور مذہب دشمنوں کا دوسرے مذاہب کو نشانہ بنانا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ یہ مذہب سے بیزار لوگ کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہیں تو کبھی خاتم النبیّن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، تو کبھی دوسرے مذاہب کا۔ عیسائی چونکہ کافی لبرل ہو گئے ہیں اسلئے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق مذاق کو ہلکا لیتے ہیں لیکن مسلمانوں کیلئے کسی بھی پیغمبر کی توہین ناقابل برداشت ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تو بالکل ہی ناقابل برداشت ہے کیونکہ ہمارے ایمان کا منبع ہی قرآن اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کامل یقین، ان کی عزت اور ان کے احکامات کی تعمیل ہے۔ حرمت رسول پاک کے دفاع پر جان نچھاور کرنا ہر مسلمان اپنے لیے دونوں جہانوں کی کامیابی اور سعادت سمجھتا ہے۔پوری دنیا اور خاص کر یورپی ممالک میں توہین رسالت کا سلسلہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے اور وقتاً فوقتاً ہمارے پیغمبر پاک کی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جاتا رہا ہے۔حال ہی میں فرانس میں تاریخ پڑھانے والے استاد سیموئل پیٹی کو ایک 18 سالہ چیچن مسلمان عبداللہ نامی لڑکے نے قتل کر دیا کیونکہ مقتول نے اپنے سکول کے شاگردوں کوتضحیک آمیز خاکے دکھا کر اس پر اپنی رائے دینے کا کہا تھا۔ عبداللہ نے چھرے سے مقتول کا اسی سکول کے باہر گلا کاٹ ڈالا جبکہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر عبداللہ کو گولی مار کر شہید کر دیا۔فرانس کے صدر ایمانیول میکرون نے استاد کی موت پر اسکے خاندان سے اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا اور میڈیا کو بتایا کہ ہم ہر حالت میں آزادی اظہار رائے کو سپورٹ کریں گے اور پیغمبر اسلام کے خلاف بنے خاکوں کی حمایت کی۔ اس بیان سے سارے مسلمان سیخ پا ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے پیغام دیا کہ ماضی میں فرانسیسیوں کی مسلمانوں پر ظلم تاریخ کا حصہ ہے اور مسلمانوں نے آنکھ کے بدلے آنکھ لینے کے مصداق اپنا بدلہ اگر لاکھوں فرانسیسیوں کو مار کر دیا تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ٹویٹر انتظامیہ نے ان کے اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے سارے مسلمانوں سے اپیل کرکے فرانس کے مکمل اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی بہت سخت انداز میں فرانس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور خبردار کیا ہے کہ ہمارے پیغمبر پاک کی توہین سے اجتناب کیا جائے ورنہ اس طرح کے سنگین واقعات کا پھر سامنا کرے۔گزشتہ ہفتے فرانس کے شہر”نائس“ میں ایک مسلمان نے اشتعال میں آکر چرچ میں گھس کر تین افراد چاقو سے مار ڈالے۔فرانس میں پیغمبر اسلام کی شان مبارک میں گستاخی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے پیرس کے ہفتہ وار شائع ہونے والے میگزین ”چارلی ایبڈو“ نے اسی طرح کے گستاخانہ خاکے بنوائے جس پر پوری مسلم دنیا میں بہت احتجاج ہوا۔ اسی وجہ سے ماضی میں چارلی ایبڈو کے دفتر پر کئی خودکش حملے بھی ہوئے جس میں کئی ہلاکتیں واقع ہوئیں۔فرانسیسیوں کی اکثریت مذہب سے بیزار لوگ ہیں اسلئے یہ لوگ مختلف مذاہب کو تنقید کا نشانہ بناتے آرہے ہیں۔ انکے مذہب سے بیزاری کی وجہ انقلاب فرانس ہے جو 1789ءسے 1804ءتک چلا۔ انقلابیوں جو عموماً الحادی اور مذہب سے بیزار لوگ تھے، نے بادشاہ، امراء، سیاسی اراکین اور مذہبی رہنماو¿ں کو چن چن کر مار ڈالا گیا۔ 1794ءمیں خدا کی عبادت اور سیاست میں مذہب کے کردار کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔اسی طرح ماضی میں نیدرلینڈ کے ایک سیاستدان گیرٹ ویلڈرز نے تصاویری مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پورے اسلامی ممالک میں اسکے خلاف جلسے جلوس ہوئے۔ عمران خان نے بھی اس پر بیان دیا تھا کہ یہ مقابلہ منعقد نہ کیا جائے کیونکہ اس سے مسلمانوں میں مذہبی اشتعال انگیزی پیدا ہوگی۔ گیرٹ ویلڈرز نے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد یہ مقابلہ منسوخ کر دیا تھا۔بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ہندوستان کے شہری ملعون سلمان رشدی نے رسول پاک کے متعلق "شیطانی آیات" کے نام سے ایک بدنام زمانہ کتاب لکھی تھی، جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور جلسے جلوس منعقد کیے گئے۔ سلمان رشدی جان گنوانے کے ڈر سے امریکہ بھاگ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ نے اسے آزادی اظہار رائے کا نام دیکر اسی کتاب پر سلمان رشدی کو ایوارڈ سے بھی نوازا۔ اسوقت کے وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق نے ملکہ الزبتھ کے اس اقدام کو بہت سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کی حرکتیں مسلمانوں کو شدت پسند بناتی ہیں اور خودکش حملہ آور بناتی ہیں۔ یورپی میڈیا نے ملکہ برطانیہ کے سلمان رشدی کو اعزاز دینے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے اعجاز الحق صاحب کے بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔پہلی جنگ عظیم سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ سلطان عبد الحمید خان کے دور میں فرانس میں تھیٹر ڈرامہ بنایا گیا تھا جس میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے توہین آمیز کردار بھی شامل تھا۔ اس پر سلطان عبد الحمید خان نے ترکی میں متعین فرانس کے سفیر کو اپنے دفتر بلایا اور گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد اس سے مل کر اسے جنگ کی دھمکی دے دی کہ اگر اس تھیٹر ڈرامے کو نہ روکا گیا تو میں جہاد کا اعلان کر دونگا اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھونگا جب تک کہ فرانس کو اپنی شرائط پر لے آو¿ں اور حرمت رسول پاک کا دفاع نہ کرلوں۔ فرانسیسی سفیر نے راتوں رات ٹیلی گرام اپنے ملک بھیجا کہ اس ڈرامے کو فوراً روکا جائے نہیں تو سلطنت عثمانیہ اور فرانس کے مابین بہت خونریز جنگ چھڑ جائے گی، جس پر حکومت فرانس نے اس ڈرامے کو شروع ہونے سے پہلے ہی منسوخ کر دیا۔حالیہ فرانسیسی صدر کے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی جس طرح حمایت کی ہے وہ سراسر اسلام دشمنی پر مبنی ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے ادارے ”تہذیبوں کا اتحاد“ کے ترجمان میگوئل اینجل موراٹینوس کا بیان بھی آگیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ مذاہب کو تنقید کا نشانہ بنانا اور اسکی تضحیک شدت پسندی کو فروغ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرانس میں پیغمبر اسلام کے متعلق تضحیک آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد جو ہنگامہ اور خونریزی شروع ہوئی ہے اس پر ”تہذیبوں کے اتحاد“ کی تنظیم کو شدید تشویش لاحق ہے۔ اسلئے اس طرح کے اقدامات کو فی الفور بند کیا جائے۔مغربی ممالک جب تک آزادی اظہارِ رائے کی آڑ میں پیغمبر اسلام کی تضحیک بند نہیں کر دیتے تب تک مسلمان چین سے نہیں بیٹھیں گے۔