لاہور میں صدیوں سے دو کردار پائے جاتے ہیں‘ ہم پہلے کردار کو ’’ویکھی جائے دی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں‘ یہ بہت دل چسپ لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عام حالات میں بہت آہستہ‘ بہت نرم اور میٹھے میٹھے چلتے رہتے ہیں‘ مشکلیں آتی ہیں تو یہ کچھ لے دے کر‘ کمپرومائز کر کے آگے نکل جاتے ہیں لیکن یہ لوگ جب بھی کسی ایسے دوراہے پر آ پھنستے ہیں جس میں انھیں کوئی حتمی فیصلہ کرنا پڑتا ہے تو پھر یہ سیدھے ہو جاتے ہیں‘ یہ ’’ویکھی جائے دی‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور مشکل سے ٹکرا جاتے ہیں‘ میں آپ کے لیے اس کردار کو مزید آسان کر دیتا ہوں‘ فرض کریں پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ ہو رہا ہے۔
میچ پھنس گیا ہے اور وکٹ پر کوئی لاہوریا کھڑا ہے تو یہ کیا کرے گا؟ یہ لازماً ’’ویکھی جائے دی‘‘ کا نعرہ لگائے گا اور کریز سے باہر نکل کرکھیلنا شروع کر دے گا‘ یہ آؤٹ ہو جائے گا یا پھر چھکے مارے گا‘ یہ آر یا پار کرے گا مگرمحتاط نہیں کھیلے گا‘ لاہور میں یہ کردار عام پایا جاتا ہے‘لاہور کا دوسرا کردار ’’چاچا ہے ناں‘‘ ہے‘ لاہور میں یہ کردار بھی عام پایا جاتا ہے‘ لاہوریے صدیوں سے اپنے خاندانوں کی ذمے داری اٹھاتے چلے آ رہے ہیں‘ یہ پہلے اپنے بہن بھائیوں کو پالتے ہیں۔
یہ جب بڑے ہو جاتے ہیں تویہ پھر بھانجوں اور بھتیجوں کی ذمے داری اٹھا لیتے ہیں اور یہ بھی جب بڑے ہو جاتے ہیں تو یہ پھر نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کو اپنی ذمے داری بنا لیتے ہیں‘ دنیا میں دُور اور قریب دو قسم کے رشتے دار ہوتے ہیں لیکن لاہور میں دُور یا قریب نہیں ہوتے‘ صرف رشتے ہوتے ہیں‘ لاہوریے اٹھارہویں نسل کے شخص کو بھی اپنا رشتے دار سمجھتے ہیں‘ یہ اپنی برادری کے ہر شخص کو ’’مسیر‘‘ کہہ کر سینے سے لگا لیتے ہیں۔
لاہور کا دوسرا کردار ’’چاچا ہے ناں‘‘ اس خاندانی روایت سے پیدا ہوا چناں چہ لاہور کے کسی خاندان میں اگر کوئی شخص ترقی کر جائے‘ وہ بزنس مین یا انڈسٹری لسٹ بن جائے‘ وہ کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے یا پھر پولیس یا سول سروس میں آ جائے تو خاندان کے تمام لوگ اسے چاچا بنا لیتے ہیں اور ہر اچھے یا برے وقت میں ’’چاچا ہے ناں‘‘ کا نعرہ لگا کر کام چلا لیتے ہیں مثلاً اگر پولیس کیس بن جائے تو ’’چاچا ہے ناں‘ وہ سنبھال لے گا‘‘ کاروبار میں نقصان ہو جائے تو ’’چاچا ہے ناں ‘وہ سنبھال لے گا‘‘ لڑائی ہو گئی تو ’’چاچا ہے ناں‘ وہ سنبھال لے گا‘‘ اور اگر کسی جگہ پیسے کے لین دین کا معاملہ آ گیا تو بھی ’’چاچا ہے ناں‘ وہ سنبھال لے گا‘‘ غرض اس کردار کے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے ’’چاچا‘‘ یہ ہر مشکل‘ ہر مصیبت میں صرف اور صرف اسی کی طرف دیکھتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے یہ ہر مشکل‘ ہر مصیبت اور ہر مسئلے کو چاچے کے کی طرف روانہ کر دیتا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
آپ اب ان دونوں کرداروں کو ذہن میں رکھیں اور پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا تجزیہ کریں تو آپ بڑی آسانی سے صورت حال سمجھ جائیں گے‘ ملک میں اس وقت ان دو کرداروں کے درمیان جنگ چل رہی ہے‘ میاں نواز شریف ’’ویکھی جائے دی‘‘ پر چلے گئے ہیں‘ یہ چھ سال حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے رہے‘ 2014کے دھرنے ہوئے‘ پاناما لیکس آئیں‘ عدالتی فیصلہ آیا‘ یہ تاحیات نااہل ہوئے‘ بلوچستان میں ان کی پارٹی توڑ کر نئی پارٹی بنا دی گئی‘ 2018کے الیکشنز میں ن لیگ کو نقصان پہنچا اور یہ جیل میں پھینک دیے گئے‘ یہ سب کچھ برداشت کر گئے۔
میاں شہباز شریف اس دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے‘بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو مکمل اختیارات دیے رکھے‘ چھوٹے بھائی نے نومبر 2019 میں بڑی کام یابی حاصل کر لی‘ یہ میاں نواز شریف کو علاج کے لیے لندن لے جانے میں کام یاب ہو گئے‘ مریم نواز نے بھی ایک ہفتے بعد لندن چلے جانا تھا لیکن عمران خان کے تین ساتھی ڈٹ گئے‘ فیصل واوڈا نے کابینہ کے اجلاس میں دھمکی تک دے دی‘ عمران خان بھی سیدھے ہو گئے اور یوں ’’مریم آپریشن‘‘ رک گیا‘ مارچ 2020میں میاں شہباز شریف کو امید نظر آئی اور یہ اپنے بھائی کو اعتماد میں لیے بغیر اچانک لاہور واپس آ گئے۔
یہ اپنا سامان ائیرپورٹ بھجوانے کے بعد شام کو صرف اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے تھے‘ بڑے بھائی نے چھوٹے کو رخصت کرتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا ’’آپ اپنا زور لگا لیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا‘‘ یہ اندازہ ٹھیک نکلا‘ میاں شہباز شریف واپسی کے بعد مسائل کا شکار ہوتے چلے گئے‘ حمزہ شہباز بدستور جیل میں رہے اورشہباز شریف فیملی پر نئے ریفرنسز بھی بنا دیے گئے‘ ن لیگ اس سے قبل نومبر 2019 میں ایکسٹینشن کے بل کا آخری کارڈ بھی کھیل چکی تھی‘ پارٹی کو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔
لہٰذا میاں نواز شریف نے ستمبر میں آ گے بڑھنے اور ’’ویکھی جائے دی‘‘ کا فیصلہ کر لیا‘ یہ اب آخری بال پر چھکا مارنے کے لیے کریز سے باہر نکل چکے ہیں‘ سعودی عرب‘ چین اور ترکی اس بار ان کے ساتھ ہیں‘ دوسری طرف امریکا تیل اور اس کی دھار دیکھ رہا ہے‘ میاں نواز شریف جانتے ہیں یہ اگر اس بار کام یاب نہیں ہوتے تو یہ ہمیشہ کے لیے آؤٹ ہو جائیں گے‘ پارٹی بھی ٹوٹ جائے گی اور یہ کاروبار اور اثاثوں سے بھی محروم ہو جائیں گے چناں چہ یہ ہر صورت سینیٹ کے الیکشنز سے پہلے چھکا مارنا چاہتے ہیں۔
عمران خان دوسرے کردار ہیں۔’’یہ چاچا ہے ناں‘‘ کی فلاسفی پر چل رہے ہیں‘ یہ اپنا ہر مسئلہ‘ ہر ایشو‘ ہر پریشانی اور ہر چیلنج ’’چاچے ‘‘ کی طرف روانہ کر دیتے ہیں‘ حکومت اس حکمت عملی کے تحت ملک کے 99 فیصد مسائل دوسروں کے کندھوں پر ڈال چکی ہے۔ حکومتی حالات یہ ہو چکے ہیں اب ایف بی آر کی میٹنگز میں بھی ایسے لوگ آ بیٹھتے ہیں جن کا ریونیو کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں‘ کے ڈی اے‘ ایل ڈی اے اور سی ڈی اے کو بھی دھکا لگانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔
وزیراعظم نے اپریل میں گندم امپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا‘ اکتوبر تک اس حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا ‘ ملک میں قحط کا اندیشہ پیدا ہو گیا چناں چہ یہ ذمے داری بھی دوسروں کو اٹھانا پڑ گئی اور اب نومبر میں باہر سے گندم آنا شروع ہو جائے گی جب کہ حکومت صرف تقریریں کر رہی ہے اور انجوائے کر رہی ہے‘ مجھ سے چند دن قبل پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم عہدیدار نے ہنس کر پوچھا ’’تم اب بتاؤ کون کس کو استعمال کر رہا ہے‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’تم لوگ ان لوگوں کو استعمال کر رہے ہو جنھوں نے تمہیں استعمال کرنا تھا‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور پھر کہا ’’اور تم لوگ پھربھی یہ کہتے ہو عمران خان کو سیاست نہیں آتی‘ ‘ حکومت کی یہ اسٹرٹیجی سردست کام یاب جا رہی ہے۔
یہ اپوزیشن کی ہر تقریر کو بھارت کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے اور پھر دیر تک تالیاں بجاتی رہتی ہے‘ لاہور کے یہ دونوں کردار کام یاب جا رہے ہیںلیکن ملک کو نقصان ہو رہا ہے‘ عوام بری طرح پستے چلے جا رہے ہیں‘ آپ مہنگائی دیکھ لیں‘ آج سے سال پہلے تک صرف غریب لوگ مہنگائی کا شکار تھے لیکن آج اپر مڈل کلاس اور اشرافیہ بھی اس کا نشانہ بن چکی ہے‘ ملک میں اب امیر لوگوں کا گزارہ بھی نہیں ہوتا‘ یہ بھی سنگل ڈش اور ایک گاڑی پر آ رہے ہیں‘ یہ صورت حال اگر مزید چھ ماہ جاری رہی تو مارکیٹ سے ضرورت کی اشیاء غائب ہو جائیں گی اور خوراک کے لیے فسادات شروع ہو جائیں گے‘ جب کہ حکومت صرف تماشا دیکھ رہی ہے‘ یہ لڑائی کسی بھی وقت سارا سسٹم ڈی ریل کر دے گی اور ملک ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر چلا جائے گا‘ اب سوال یہ ہے اس کھیل کا کیا نتیجہ نکلے گا؟۔
پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں کو تین آپشنز میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا ہوگا‘ اول‘ یہ اس صورت حال کو جوں کا توں چلنے دیں‘ اپوزیشن اور حکومت لڑتی رہے‘ ملک مہنگائی‘ بیڈ گورننس اور نااہلی کا شکار ہوتا رہے اور یہ نااہلی خود ہی کوئی فیصلہ کر دے‘یہ آپشن مشکل ہے کیوں کہ اس کے آخر میں ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا‘ دوم‘ اپوزیشن کی چولیں ہلا کر رکھ دی جائیں‘ پارٹیاں ٹوٹ جائیں‘ قیادت جیلوں میں ڈال دی جائے اور غداری اور بغاوت کے خوف ناک مقدمات قائم ہو جائیں اور یہ حکومت یہ پانچ سال بھی پورے کر جائے اور ’’عوام‘‘ اگلے الیکشن میں بھی عمران خان کو کام یاب قرار دے دیں۔
یہ آپشن بھی مشکل ہے کیوں کہ حکومت پرفارم نہیں کر رہی‘ یہ صورت حال بھی ملک کو بے تحاشا نقصان پہنچائے گی اور سوم‘ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فارغ کر دیا جائے‘ ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کر دی جائے‘شوکت عزیز جیسا کوئی شخص لایا جائے اور یہ ملک کو ٹریک پر لے آئے‘ اس دوران سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہو‘ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے ہم بڑی تیزی سے اس آپشن کی طرف بڑھ رہے ہیں چناں چہ آپ سیٹ بیلٹ باندھ لیں اور صدر کی تقریر کا انتظار شروع کر دیں‘ یہ اب زیادہ دور نہیں!۔