موجودہ حکومت کی ووٹ کی طاقت‘ ملک میں کرپشن کے خلاف جنگ کے ساتھ عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی اور معیاری تعلیم کی فروغ بنیادی وجوہات ہیں کیونکہ ماضی کی حکومتوں کا ان اہم مدات کی طرف توجہ بہت کم رہی تھی۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود تعلیم کی مد میں مجموعی بجٹ صرف چار فیصد اور اسی طرح صحت کی مد میں بہت ہی کم رقوم مختص کی جاتی رہیں۔ جسکی وجہ سے ان دو مدات میں ہر آنے والے سال خرابیاں بڑھتی جا رہی تھیں جس سے عوام کی ضروریات اور ملکی ترقی کی راہیں دن بہ دن مسدود ہوتی رہیں۔خیبر پختونخوا میں تعلیم تو اپنی جگہ صحت کی مد میں حکومت کی توجہ واجبی سی ہوتی تھی ہر سال بجٹ میں اس قدر رقم مختص کی جاتی تھی کہ مشکل سے ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل سٹاف اور دوسرے عملے کی تنخواہیں پوری ہوا کرتی تھیں۔ پہلے سے موجود بی ایچ یوز، آر ایچ سیز، کیٹیگری اے بی اور ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا جسکی وجہ سے دیہات سے لوگ پشاور میں واقع تین بڑے ہسپتالوں یعنی ایل آر ایچ، کے ٹی ایچ، ایچ ایم سی اور متمول گھرانوں کے لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کو جانے پر مجبور تھے۔موجودہ حکومت نے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کچھ تو اقدامات اٹھائے ہیں اور سرکاری ہسپتالوں میں ظاہری تبدیلی بھی نظر آنے لگی ہے ۔ تاہم اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو وہاں کے حالات عام آدمی کیلئے ضرورت کے مطابق ابھی نہیں سدھرے ہیں۔ البتہ یہ امر تسلی کیلئے کافی ہے کہ حکومت نے دیہی علاقوں میں واقع بی ایچ یوز اور آر ایچ سیز کو طبی آلات اور دوسری ضروری سہولیات سے آراستہ کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں پشاور کے آس پاس واقع ان جیسے طبی اداروں میں سہولیات و ضروریات پوری کر دی گئی ہیں۔ جسکی وجہ سے بڑے ہسپتالوں پر بوجھ بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کی تبدیلی اگر صوبے کے دور دراز علاقوں میں کی جائے تو حالات مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔یہ امر قابل افسوس ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان قانونی موشگافیاں دور کرنے، انکے حالات کار اور مراعات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے کئی بہت سینئر ڈاکٹروں نے صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال ایل آر ایچ سے استعفوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جسکی وجہ سے عام لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔صوبائی حکومت نے چند ڈاکٹروں کو برطرف بھی کیا ہے۔ مسئلے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نے بھی نوٹس لیا ہے اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔ اس سلسلے میں صوبائی سیکرٹری صحت نے ڈاکٹروں سے ملاقات کی ہے اور ان سے مسئلے کے حل کیلئے تجاویز طلب کی ہیں۔لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور، پاکستان میں اہم پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹس میں سے ایک ہے۔ اسے عرف عام میں لوئے یعنی بڑا اور جرنیلی ہسپتال کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ریڈنگ کی بیوی ایلس آئزک ریڈنگ کے نام پر قائم ہوا تھا۔ لارڈ ریڈنگ برطانوی سیاستدان اور وائسرائے ہند لبرل پارٹی کی طرف سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا تھا۔ 1911ءمیں اسے اٹارنی جنرل بنایا گیا اور 1913ء سے 1921ءتک برطانیہ کے چیف جسٹس رہے۔ 1921ء میں ہندوستان کا وائسرائے بن کر آیا اور 1926ء میں ریٹائر ہوا۔ 1924ءمیں وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ اپنی اہلیہ ایلس ریڈنگ کے ہمراہ پشاور کے دورے پر آئے تھے۔ ان کا قیام قلعہ بالا حصار میں تھا۔ ایلس ریڈنگ بالا حصار قلعہ سے پشاور شہر کا نظارہ کر رہی تھی کہ ان کو پشاور کے سیر کی خواہش پیدا ہو گئی اور اس وقت موجود حکام سے کہا کہ اسے پشاور شہر کی سیر کرائی جائے۔ چنانچہ خواہش کی تکمیل کیلئے گھوڑا مہیا کیا گیا اور وہ سیر کیلئے نکل گئی۔ جب وہ واپس قلعے کی طرف لوٹ رہی تھی تو اسکا گھوڑا گھبرا گیا۔ اسی گھبراہٹ کے دوران لیڈی ریڈنگ گھوڑے سے نیچے گر گئی۔ نیچے گرنے سے اسے کافی چوٹیں آئیں۔ طبی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں۔ انہیں جلد از جلد ایجرٹن ہسپتال پہنچایا گیا۔ مگر وہاں بھی طبی سہولیات اتنی قلیل تھےں کہ لیڈی ریڈنگ کی چوٹوں سے نمٹنے کے قابل نہیں تھے۔ جسکی وجہ سے اسے رائل آرٹلری ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ رائل آرٹلری ہسپتال کو اب کمبائنڈ ملٹری ہسپتال ( سی ایم ایچ ) کہا جاتا ہے۔ وہاں پر انکا مناسب علاج کیا گیا۔ لیڈی ریڈنگ صحت مند ہو گئی لیکن اس پر اس واقعے کا بہت گہرا اثر ہوا اور دل میں پشاور کی ناکافی طبی سہولیات کی خلش رہ گئی 1926ء میں لارڈ ریڈنگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ دہلی سے پشاور آئیں اور ایجرٹن ہسپتال کی جگہ ایک معیاری ہسپتال قائم کرنے کی مہم چلائی۔ جس کیلئے اس وقت دس لاکھ روپیہ جمع کیے۔ لیڈی ریڈنگ نے اپنی جیب سے بھی باون ہزار ( 52000 ) روپے ادا کیے جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر لیڈی ریڈنگ زخمی نہ ہوتی یا اسے طبی امداد فوراً مل جاتی تو آج نہ صرف پشاور کے عوام بلکہ صوبے کے عوام اس عظیم الشان ہسپتال سے محروم ہوتے اس ہسپتال کو بعد میں 150 بستروں پر مشتمل ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دیا گیا۔ 1930ء میں بستروں کی تعداد بڑھا کر 200 کر دی گئی۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کو 1955ء میں خیبر میڈیکل کالج سے میڈیکل، سرجیکل، ای این ٹی اور ٹی بی وارڈ سے وابستہ کیا گیا۔ اس وقت یہ ہسپتال نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ افغانستان سے آنے والے بہت سارے مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس ہسپتال کے شعبہ حادثات اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کی او پی ڈی میں روزانہ 5500 مریضوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ حادثات اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں کیجولٹی کیسز کی تعداد 2500 سے لیکر 3000 روزانہ سے زیادہ ہے۔