حال ہی میں کابل یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے بائیس ( 22 ) طلباء و طالبات شہید کر دئیے اور بیس سے زائد زخمی کر دئیے۔ اس حملے میں پانچ اساتذہ اور کئی سیکورٹی اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری ایک شدت پسند تنظیم نے قبول کرکے اپنے دو جنگجووں کی تصاویر بھی شائع کر دی ہیں۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق دو دہشت گرد پولیس کے لباس میں ملبوس یونیورسٹی میں داخل ہو کر حملہ آور ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس کا بدلہ ضرور لیں گے اور افغان قوم کے ارادے اس طرح کی مذموم کوشش سے پست نہیں ہوں گے۔بالکل اسی طرح کا ایک افسوسناک واقعہ 16 دسمبر 2014ءکو پاکستان میں پیش آیا تھا جب دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول ( اے پی ایس ) پشاور پر حملہ کرکے سینکڑوں بچوں اور سکول اہلکاروں کو شہید کیا تھا۔ جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے کہنے پر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پورے ملک میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کےلئے”ضرب عضب آپریشن“ شروع کر دیا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں دہشت گرد مار ڈالے جبکہ بقایا افغانستان بھاگ گئے۔افغانستان میں حالیہ افسوسناک دہشت گردی کا واقعہ ایک ایسے وقت ہوا جب امریکہ اگلے سال ( مارچ 2021ء) کے اوائل میں اپنی فوجوں کا مکمل انخلاءکرنے والا ہے لیکن بھارت چونکہ افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور اسکے بڑی تعداد میں فوجی بھی وہاں موجود ہیں۔ اس لیے امریکی فوجیوں کے جانے کے بعد ساری انڈین سرمایہ کاری ضائع ہونے کا امکان ہے کیونکہ امریکی فوج کے جانے کے بعد افغان طالبان کی ساری توجہ اس کی جانب ہو جائے گی۔ ویسے بھی اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو افغان مجاہدین ہندوستان کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے والی قوم ہے۔”ہِند±وک±ش کی پہاڑیاں“بھی تو اسی وجہ سے مشہور ہیں اور یہی فکر متشدد ہندوتوا نظریہ رکھنے والے مودی سرکار کو امریکہ کے رخصت ہونے پر لاحق ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال 2020ءمیں افغان طالبان سے دوہا، قطر میں امن معاہدہ کرکے امریکی افواج کو بتدریج افغانستان سے کم کرنا شروع کر دیا ہے اور معاہدے کے مطابق مارچ 2021ءتک یہ انخلاءمکمل ہو جائے گا۔ اب چونکہ حالیہ امریکی انتخابات میں جو بائیڈن نئے صدر منتخب ہو گئے ہیں تو اس موقع پر کابل یونیورسٹی میں طلباءو طالبات کے اس قتل عام سے قطر معاہدہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور را کے سائے میں پلنے والی تنظیمیں یہی چاہتی بھی ہےں۔ افغان طالبان نئے امریکی صدر جو بائیڈن سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ قطر معاہدے کی پاسداری کرینگے اور جلد از جلد افغانستان سے فوجی انخلاءمکمل کریں گے۔ بھارت ، پاکستان کا دو اطراف سے یعنی مشرقی ( انڈین بارڈر ) اور مغربی ( افغانستان ) محاذ سے گھیراو¿ کے ذریعے مصروف رکھنا چاہتی ہے تاکہ اگلے مرحلے میں مقبوضہ کشمیر سے بڑھ کر آزاد کشمیر پر کے حوالے سے اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہناسکے۔ کلبھوشن یادیو کاپکڑا جانا اور اسکا ہمارے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا اعترافی ویڈیو بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان کے عزائم 1971ءجیسے ہیں۔ 71ءکی جنگ میں بھی ہندوستان نے مشرقی پاکستان پر چڑھائی سے سالوں پہلے را نے شیخ مجیب الرحمٰن کی قیادت میں مکتی باہنی کو دہشت گردی کی کاروائیوں کی تربیت دی تھی۔ اگرتلہ سازش کیس میں جنرل ایوب خان شیخ مجیب الرحمٰن کو پھانسی کی سزا دینا چاہتے تھے مگر سیاسی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔سی پیک منصوبہ بھی انڈیا اور امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے اسلئے ماضی میں چینی انجینئروں کو اغواءکرکے ہلاک بھی کیاگیا اور اب بھی بلوچستان اور گوادر کے علاقے میں پاک فوج کے گشتی دستوں پر بی ایل اے اور را کے تربیت یافتہ دہشت گرد گھات لگا کر حملے کرتے رہتے ہیں۔افغان حکومت 1947ءسے ہی پاکستان کی سالمیت کے منافی اقدامات کرتی رہی ہے۔ صرف واحد افغان طالبان کی حکومت تھی جنہوں نے ہماری ملکی سالمیت کو دل سے تسلیم کیا تھا اور جن کے پانچ سالہ ( 1996ء تا 2001ء ) دور حکومت میں ہمارے ملک میں دہشت گردی کے بہت ہی کم واقعات ہوئے تھے۔ اپنے سپریم لیڈر ملا عمر کے حکم پر افغان طالبان نے اپنے ملک کو سارے دہشت گردوں، مجرموں اور منشیات فروشوں سے مکمل پاک کر دیا تھا۔ یہاںتک کہ طالبان کی پاکستان سے محبت کی وجہ سے افغانستان کے لوگ آپس میں”کابل چوک“کو ”پاکستان چوک“کہنے لگے تھے۔ 9/11 واقعے کے بعد جب امریکہ نے اپنے قدم وہاں پر جما لیے تو سی آئی اے نے افغان طالبان کو بدنام کرنے کےلئے ان کے اسلامی نظریے کو ہائی جیک کرنے کی مذموم کوشش کی جنہوں نے افغانستان اور خاص کر پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا جو اب تک جاری ہے۔ سی آئی اے اور را نے کافی دہشت گردی کے واقعات کےساتھ ساتھ حال ہی میں کابل یونیورسٹی میں بھی دہشت گرد کاروائی کی ہے، تاکہ امریکی فوجیوں کے رکنے کےلئے جواز فراہم کیا جائے۔حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے بقول افغانستان ایشیا کا دل ہے۔ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک ایشیا میں امن و سکون نہیں آسکتا۔ افغانستان میں قیام امن کےلئے اس کے پڑوسی ممالک روس، چین، ایران، ترکی اور پاکستان کو بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو سکے اور ایشیا میں امن قائم ہو سکے جبکہ بھارت کو وہاں سے خود ہی نکلنا ہو گا یا اسے زبردستی نکالنا پڑے گا ورنہ جنوبی ایشیا میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گی۔