پہلی ترجیح ہے ملک کی بقا

حکومت کے منع کرنے کے باوجود اپوزیشن نے نے جلسے کیے اور بھرپور انداز میں کیے اور غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ بھی وہ اپنا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رکھے گی کہ جب تک بقول ان کے موجودہ حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیا نہیں جاتا اپوزیشن کا یہ خیال ہے کہ حکومتِ وقت آئندہ مارچ تک رخصت ہونے والی ہے یہ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ اسے اپوزیشن کی خام خیالی تصور کرتے ہیں یا خواہش اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں مارچ کے مہینے کا اپوزیشن لیڈر ذکر اسلئے کرتے ہیں کہ اس مہینے سینٹ کے الیکشن ہوں گے اور ان الیکشنز میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں اور جیتنے کی صورت میں وہ سینٹ میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن سکتی ہے اس لیے اپوزیشن پارلیمنٹ کی بساط مارچ سے پہلے ہی لپیٹنا چاہتی ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ملک کے عام آدمی کو کورونا وبا کی اس دوسری شدید لہر میں اپوزیشن کے جلسوں کا پروگرام کوئی اچھا نہیں لگا لوگ جس تیزی سے مر رہے ہیں اس سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یہ پیشگوئی درست ثابت ہو رہی ہے جو اس نے چار ماہ قبل کی تھی کہ سردیوں کے موسم میں اس وباءکی جو دوسری لہر آنے والی ہے وہ پہلی لہر سے زیادہ تباہ کن ہوگی اس لئے کوئی مضائقہ نہ تھا اگر اپوزیشن والے اپنے جلسوں کو کم ازکم دو مہینے تک ملتوی کر دیتے کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس وبا کو روکنے کےلئے دسمبر کے آخر تک کہیں نہ کہیں سے ویکسین پاکستان پہنچ جائے خدا لگتی یہ ہے کہ اپوزیشن نے اپنے جلسوں کا شیڈول بدلنے سے انکار کر کے اس ملک کے عوام کی ہمدردی کھوئی ہے۔یہ بات ہماری سمجھ سے آج تک بالاتر ہے کہ آخر اپوزیشن لیڈروں کے ذہن میں یہ بات کیوں نہیں بیٹھتی کہ وہ آج کل کے زمانے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھائیں جلسے اور جلوسوں کا آخر مقصد کیا ہوتا ہے ؟ یہی مقصد ہوتا ہے ناں کہ آپ عوام تک اپنی رسائی کر کے انہیں اپنا وہ سیاسی پیغام پہنچائیں جو آپ انہیں پہنچانا چاہتے ہیں اور آج کے جدید ترین سائنسی زمانے میں ٹیلی ویژن کی سکرین اور ریڈیو سے زیادہ بہتر دوسرا کونسا ذریعہ ہو سکتا ہے کہ جسے استعمال کرکے آپ ملک کے چپے چپے میں بیٹھے لوگوں تک براہ راست رسائی حاصل کر سکیں اس وقت مارکیٹ میں ایک درجن سے زیادہ نجی ٹیلی ویژن چینلز کام کر رہے ہیں جن کی خدمات سے آپ بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں جتنا خرچہ آپ جلسے اور جلوسوں کے انعقاد پر کرتے ہیں اس سے کم خرچے پر ٹیلی ویژن چینلز والے آپ کی یہ خدمت کر سکتے ہیں ساری دنیا میں خصوصا ان ممالک میں کہ جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جڑیں پکڑ لی ہیں وہاں الیکشن کی مہم میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا ہی بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے پاکستان میں ہم بھلا کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟بس اس کےلئے ہمیں تھوڑا سا اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا اس روش کو اپنانے سے تخریب کاروں کے حملوں سے بھی کافی حد تک ہمارے سیاستدان محفوظ ہو جائیں گے کہ جو ان کو ماضی میں جلسوں کے دوران نشانہ بناتے رہے ہیں نیز ہر حکومت کو ان جلسوں میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے ہر سال جو کروڑوں روپے پولیس، بارڈر فورس ، فرنٹیئر کور اور رینجرز کی تعیناتی پر ٹی اے ، ڈی اے اور پٹرول کی مد میں خرچ کرنے پڑتے ہیں ان سے بھی اس کی جان چھوٹ جائے گی اس تجویز پر عمل درآمد کرنے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا برابر کا فائدہ ہے کیونکہ آج اگر کوہی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہے تو کل کلاں وہ ایوان اقتدار میں بھی ہو سکتی ہے۔مقام افسوس ہے کہ ہمارے اکثر سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں اپنا وقت نان ایشوز پر ضائع کر رہی ہیں ان کی نظرسے وہ اہم معاملات اوجھل ہیں کہ جو ہم سب کی توجہ کے مستحق ہیں۔