سابق امریکی صدر بارک اوباما نے مذاق مذاق میں یہ بات کہی ہے کہ ٹرمپ کو وائٹ ہاو¿س سے نکالنے کے لئے فوج سے مدد لینا پڑ سکتی ہے امریکا کا صدارتی الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کے مہینے میں ہوتا ہے اور اس میں ہارنے والے امریکی صدر کو 20 جنوری سے پہلے وائٹ ہاو¿س چھوڑ کر اقتدار اپنے جانشین کے حوالے کرنا ہوتا ہے چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی عادتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب تک امریکی صدر بننے والوں میں سب سے زیادہ لااُبالی طبیعت کے مالک ہیں لہذا ان سے کسی بھی غیر عجیب و غریب قسم کی حرکت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد ہم روڈ ٹریفک کے اس طوفان بدتمیزی کا ذکر کرنا ضروری تصور کرتے ہیں کہ جس کا نظارہ ہم کو روزانہ اپنی سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے اور جس سے روزانہ درجنوں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے اس ضمن میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کیا یہ جو مختلف نوعیت کے حادثات ہماری سڑکوں پر روزانہ ہو رہے ہیں ان کے سدباب کےلئے ضروری قوانین موجود ہیں اور اگر موجود ہیں تو پھر ان پر سختی سے عملدرآمد کیوں نہیں کیا جا رہا اور اگر ان قوانین میں کوئی سقم ہے یا ان کا سرے سے وجود ہی نہیں تو پھر یہ پارلیمنٹ آخر کس مرض کی دوا ہے؟ عوام نے کس کام کےلئے اسے منتخب کیا ہے اور اس کے ارکان بھاری بھرکم تنخواہ اور دیگر اضافی مالی مراعات ہر ماہ کس کھاتے میں وصول کر رہے ہیں؟ روڈ پر ٹریفک کے حادثات کی ایک بڑی وجہ ڈرائیوروں کا دوران ڈرائیونگ موبائل کا استعمال ہے ٹریفک پولیس والوں نے جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگا رکھے ہیں کیا ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرنے والوں کو گرفتار کرکے ان کی گاڑیوں کو کم ازکم 24 گھنٹے تک متعلقہ تھانوں میں بند نہیں کیا جاسکتا ؟ کیا ان پر بھاری جرمانہ عائد نہیں کیا جاسکتا ؟اگر تو اس ضمن میں پہلے سے ہی کوئی قانون موجود ہے تو اس پر ٹریفک پولیس عملدرآمد کیوں نہیں کر رہی اور اگر کوئی قانون موجود نہیں تو ہماری اسمبلیوں کے ارکان اس ضمن میں مناسب قانون سازی کیوں نہیں کرتے ان کو کس بات کا انتظار ہے؟جہاں تک اوور سپیڈنگ کا تعلق ہے اسے روکنے کےلئے بھی ٹریفک پولیس کو سخت ترین قسم کا قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ زیادہ تر روڈ کے حادثات اوور سپیڈنگ کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ اوور سپیڈنگ کرنے والے ڈرائیور کا لائسنس کم از کم پانچ سال کےلئے معطل کر دیا جائے یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سڑکوں پر روزانہ کم سن بچے جن کی عمر 8 سال سے 18 سال تک ہوتی ہے وہ موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر انہیں ہوا کے گھوڑے کی طرح چلاتے ہیں اور وہ ٹرکوں اور بسوں کے نیچے آ کر کچلے جا رہے ہیں ٹریفک پولیس والے ان سے یا ان کے والدین سے یہ نہیں پوچھتے کہ وہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے کیسے موٹر سائیکل چلا سکتے ہیں اس ضمن میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دس میں سے نو کیسز میںلوگ بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور پولیس ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتی اس سلسلے میں بھی سخت سے سخت قانون سازی بھی کرنا ہوگی اور پھر اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کم عمر بچوں کو اگر سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتے پکڑا جائے تو پولیس والے ان کے والدین کے خلاف پرچہ دیں اور انہیں جیل کی ہوا کھلائیں۔ دیکھئے پھر معاشرہ کیسے ٹھیک نہیں ہوتا ۔یہاں پر اس بات کا بھی ذکر ضروری ہے کہ ہم لوگ عادتا اپنی گاڑیوں کی فزیکل فٹنس کا خیال نہیں کرتے بقول کسے ہم صرف ویل ڈرائیور ہیں‘ گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے ہم اپنی گاڑی کے وہ پرزے چیک نہیں کرتے کہ جن کے خراب ہونے سے جان لیوا ایکسیڈنٹ ہو سکتے ہیں ہماری سڑکوں پر جو ٹریفک کے حادثات رونما ہو رہے ہیں ان کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جو گاڑیاں ںسڑکوں پر آپ کو دوڑتی نظر آ رہی ہیں وہ فزیکل فٹنس کی کسوٹی سو فیصد پورا نہیں اترتی ہیں اور بقول کسے وہ تو کل پر چل رہی ہیں۔