اخلاقیات کا فقدان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارجنٹینا کے مشہور فٹبالر ڈی ایگو میراڈونا اب ہم میں موجود نہیں رہے ‘ گزشتہ بدھ کے روز ان کی موت کے ساتھ ہی دنیائے فٹبال کی کتاب کا ایک روشن باب ختم ہو گیا ایک عرصے سے فٹ بال کے شائقین کے درمیان یہ بحث چل رہی ہے کہ ڈیاگو میراڈونااور برازیل کے پیلے Pele میں کونسا بہتر فٹ بالر تھا جس طرح آج کل فٹبال کے بعض مبصرین ارجنٹینا کے میسی کو دور حاضر کا دنیا کا بہترین فٹبالر گردانتے ہیں تو بعض پرتگال کے رونالڈو کو یہ اعزاز دیتے ہیں بالکل اسی طرح کسی دور میں بعض فٹبال کے ناقد یہ اعزاز پیلے کو دیتے تھے تو کئی دوسرے اس اعزاز کا مستعق میراڈونا کو سمجھتے تھے اس بات میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ دنیاے فٹبال نے آج تک ان دونوں کھلاڑیوں کے ہم پلہ کوئی کھلاڑی گزشتہ سو سال کے عرصے میں نہیں دیکھا ۔میرا ڈونا 1986 کے ورلڈ کپ فٹبال ٹورنامنٹ میں اس ارجنٹینا کی ٹیم کے کپتان تھے کہ جس نے ورلڈ کپ جیتا تھا لاطینی امریکہ کے ممالک میں فٹبال وہاں کے عوام کا پسندیدہ کھیل ہے اور یہی وجہ ہے کہ برازیل ‘ارجینٹینا وغیرہ جیسے ممالک کی فٹبال کی ٹیمیںہمیشہ دنیاے فٹبال پر چھائی رہی ہیں۔میراڈونا کا دنیا ے فٹبال میں وہی مقام ہے جو ہاکی میں دھیان چند کا ہے ‘کرکٹ میں سر ڈانلڈ بریڈمین کا ہے اور اسکواش میں ہاشم خان کا ہے میرا ڈونا جیسے کھلاڑی صدیوں کے بعد کہیں جا کر پیدا ہوتے ہیں‘ان ابتدائی کلمات کے بعد ذرا ذکر ہو جائے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ کا کہ جس میں اس نے بھارت کو دنیا کا کرپٹ ترین ملک قرار دیا ہے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کسی جگہ بھی کوئی بھی کام بھلے وہ کتنا جائز اور قانونی ہی کیوں نہ ہو متعلقہ اہلکاروں کی مٹھی گرم کیے بغیر نہیں کروایا جاسکتا سچ تو یہ ہے کہ صرف بھارت کے متعلق ہی یہ بات نہیں کہی جاسکتی تیسری دنیا کے تقریبا تقریبا ہر ملک میں کرپشن ان کی رگ و پے میں مکمل طور پر سرایت کر چکی ہے کسی بھی دفتر میں چلے جاو¿ جو کام دس منٹ میں ہو سکتا ہے اسے اس لئے لٹکا دیا جاتا ہے کہ سائل متعلقہ اہلکار کی مٹھی میں کچھ نہ کچھ تھما دے نجی دفاتر میں شاید ابھی کرپشن کی وبا نے زیادہ شدت اختیار نہیں کی ، پر سرکاری دفتروں کا تو برا حال ہے پرانے تجربہ کار لوگ یوں ہی تو جوانوں کو یہ دعا نہیں دیتے کہ جاو¿ بچو خدا تم کو ضلع کچہری اورہسپتال کے چکر سے بچائے کسی نے کیا زبردست بات کی ہے کہ یورپ میں جب کوئی مریض شفایاب ہو کر ہسپتال سے گھر جاتا ہے تو اداس ہو جاتا ہے پر اپنے ہاں جب کسی کی ہسپتال سے گلوخلاصی ہوتی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا ہر گھر میں ہر ماں باپ بیوی بہن اور بھائی کو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا شوہر اور بھائی جو اگر گھر کا خرچہ چلا رہا ہو تو اس کی ماہانہ آمدنی کتنی ہے اگر وہ اپنے والدین بہن بھائی یا اہلیہ کو اپنی ممکنہ اور معلوم آمدنی سے زیادہ اخراجات کرتے نظر آتا ہے تو اس سے اس کے گھر کا کوئی فرد بالکل یہ نہیں پوچھتا کہ تم یہ جو اضافی رقم خرچ کر رہے ہو یہ کہاں سے آئی ہے کہیں کیا تمہاری لاٹری نکلی ہے ؟ افسوس کہ اس ملک کے اکثر حکمرانوں نے بانی پاکستان اور قائد ملت کے بعد روز اول سے ہی اپنے لیے جو طرز زندگی اپنایا اس کا ان کے ملک کے زمینی حقائق سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا انہوں نے ملکی وسائل کو بے دردی سے سے اپنے ذاتی نشونما پر خرچ کیا کاش کہ وہ اپنی زندگی اس طرح گزارتے کہ جس طرح بانی پاکستان نے گزاری یاپھر قائد ملت نے‘۔