کالا دھن-فضول خرچیاں

حال ہی میں پنجاب کے شہر لاہور کے کئی شادی ہالوں میں شادیاں منعقد ہوئیں، جس میں کروڑوں اور اربوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔ پاکستان جیسے ملک جس میں غریب اپنا پیٹ بھرنے کیلئے دو وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہوں وہاں پر شادی میں پیسے کا اس طرح کا ضیاع سراسر اسراف اور ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس واقعے کا ایف آئی اے نے نوٹس لے کر انکوائری شروع کر دی ہے اور شادی ہالوں پر چھاپے بھی مار ے جارہے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کالا دھن بہت عام اور فخر کی علامت بن گیا ہے، جس کی وجہ مہنگائی کا دن بہ دن بڑھنا، بدعنوانی او رشوت خوری کا عام ہونا اور خائن لوگوں کا بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہونا ہے۔ چونکہ اس طرح کا پیسہ گھروں کے تہہ خانوں میں چھپا کر رکھا جاتا ہے اسلئے شادی بیاہ یا دوسری پارٹیوں اور شغل میلوں پر خوب لٹا دیا جاتا ہے۔ایک وقت تھا کہ ہمارے معاشرے میں بدعنوان عناصر یعنی رشوت خوروں، منشیات فروشوں اور سمگلروں کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور عوام و شرفاءاس طرح کے لوگوں سے میل ملاپ سے اجتناب برتتے تھے۔ لیکن اب تو ایسے لوگوں کےساتھ روابط کو قابل فخر اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ماضی میں متعلقہ اینٹی کرپشن اداروں نے چھاپے مار کر ہمارے سیاستدانوں، بڑے بڑے کاروباری افراد، بیوروکریٹس وغیرہ کے گھروں سے کروڑوں، اربوں روپے کی نقدی برآمد کی ہے اور کچھ تو منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس کالے دھندے کو روکنے میں ہمارا نظام بے بس ہے کیونکہ ہمارے پورے نظام کو ان بدعنوان عناصر نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ختم ہونا تو درکنار، جو بھی ایماندار افسر اس کالے دھن کو روکنے کی کوشش کرتا ہے وہ یا تو اوچھے ہتھکنڈوں سے نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے یا پھر مار دیا جاتا ہے۔ پاکستانی ماڈل اور سمگلر ایان علی کی مثال ہمارے سامنے ہے، جس کو پکڑنے والے انسپکٹر اعجاز چوہدری کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ نیب کا تفتیشی افسر کامران فیصل جو سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری کے حکم پر رینٹل پاور کرپشن کیس میں شامل بدعنوان عناصر کے خلاف ثبوتوں کا کھوج لگا رہے تھے، کو بھی انہی عناصر نے نیب ریسٹ ہاو¿س اسلام آباد میں پھانسی کا پھندا ڈال کر مار ڈالا۔ اس پر نیب کے افسران نے پریس کلب اسلام آباد کے سامنے احتجاج بھی کیا لیکن بےسود۔اسی طرح ماضی میں کے پی کے مشہور نڈر، اصول پسند اور ایماندار اعلیٰ پولیس افسران کمانڈنٹ ایف سی صفوت غیور، ڈی آئی جی عابد علی اور ڈپٹی آئی جی ملک سعد کے علاوہ بہت سارے دوسرے نڈر اور اصول پسند سیاسی شخصیات بھی بدعنوان و دہشت گرد عناصر کی بھینٹ چڑھے۔اس ملک میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گھروں سے ایف آئی اے اور دوسرے متعلقہ اینٹی کرپشن اداروں نے چھاپے مار کر کروڑوں روپے مالیت کا سونا اور نقدی برآمد کی ہے۔ ماضی میں سندھ کے ایک صوبائی وزیر کے گھر سے 200 کروڑ روپے نقد برآمد کیے گئے تھے۔ اسی طرح مئی 2016ءمیں نیب اور ایف آئی اے نے چھاپے کے دوران بلوچستان کے ایک سیاستدان اور سابق وزیر خزانہ کے گھر سے ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے 12 بھرے بیگ برآمد کیے تھے جن کی کل مالیت 63 کروڑ روپے تھی۔ بعد میں اس نے نیب سے پلی بارگین کے تحت 2 ارب روپے ادا کرکے اپنے آپ کو چھڑا لیا حالانکہ اس نے کئی ارب روپے ہڑپ کیے تھے۔ چونکہ ہماری عدالتیں وہی روایتی اور پرانے و بوسیدہ 1860ءکے اینگلو سیکسن قانون کے مطابق گواہان اور ثبوت مانگتی ہیں۔ کرپٹ عناصر چونکہ ہمارے معاشرے میں بااثر ہوتے ہیں، کوئی ان کے خلاف گواہی نہیں دیتا اور اس طرح وہ عدالتوں سے باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں۔ انہی قانونی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے ہماری حکومتیں بھی وقتاً فوقتاً ایسے وائٹ کالر کریمنلز کیلئے کرپشن کے متعلق قانون میں نرمی کرتی رہتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اسی لیے نیب کی تشکیل کی کہ قومی چوروں اور ڈاکوو¿ں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی جائے لیکن نیب کا بھی وہی حشر ہوا جو دوسرے اینٹی کرپشن اداروں کا روز اول سے ہوتا آ رہا ہے۔ اس کے متعلق ایک سابقہ چیف جسٹس کے ریمارکس بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ نیب تو پلی بارگیننگ کے ذریعے قومی چوروں اور لٹیروں کا سہولت کار بن گیا ہے۔مسلم لیگ نون کی حکومت نے 2016ءمیں انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ کا قانون قومی اسمبلی سے پاس کرایا۔ اس قانون کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ پی ٹی آئی حکومت نے بھی کچھ اس طرح کے اقدامات اٹھائے ہیں اور کالے دھن کا پیسہ رکھنے والوں کیلئے قانون میں ترمیم کرکے اعلان کیا ہے کہ جو اس طرح کے پیسے کو بینکوں میں جمع کرائے گا تو اسے اسکے ٹیکس پر رعایت دی جائیگی۔ یہ ملک ایک مسیحا کی منتظر ہے لیکن اس کے لیے نڈر، بےباک، محب وطن اور ایماندار قیادت کی ضرورت ہوگی کیونکہ صرف فرد واحد کے ایماندار اور مخلص بننے سے کوئی بھی ملک کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔