اس ملک میں کئی ایسے لوگ بھی بستے ہیں کہ جنہیں بالکل اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وطن عزیز میں کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں اور اکثر لوگ محض اسلئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں کہ انکے پاس اپنے علاج معالجے کےلئے پیسے نہیں ہوتے اسلئے دکھ ہوتاہے جب بھی کہیں سے اسراف کی کوئی خبر آتی ہے حال ہی میں لاہور میں ایک ایسی شادی کی تقریب ہوئی کہ جس پر دو ارب روپے کا خرچہ آیا یہ شادی لاہور کے دو مالدار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے اور بچی کی تھی دو ارب روپے کے اخراجات کی پوری تفصیلات اس ملک کے میڈیا میں چھپ چکی ہیں لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اس ملک میں انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس لگانے والوں کا یہ فرض نہیں بنتاکہ وہ ذرا گہرائی میں جاکر کر اس بات کا کھوج لگائیں کہ جن لوگوں نے مندرجہ بالا شادی پر دو ارب روپے خرچ کیے ہیں ان کی ٹیکس ہسٹری کیا ہے؟ہم نے تو یہ پڑھا اور سنا ہے کہ ہر دولت کے انبار کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے یہ تو اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کا کا بنیادی فرض ہے کہ وہ معاشرے کے ہر فرد کے اوپر کڑی نظر رکھے کہ کوئی شخص کسی غیر قانونی اور ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی تو نہیں کر رہا انسانی حقوق اور پرائیویسی privacy کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان ہر لحاظ سے مادرپدر آزاد ہو جائے اور کوئی اگر اس سے یہ پوچھے کہ تم اپنی معلوم آمدنی سے زیادہ سر مائے کے مالک کس طرح بن گئے ہو تو وہ فورا انسانی حقوق کی آڑ کا سہارا لے کر شور مچانا شروع کر دے کہ حکومت اس کی پرائیویسی کا خیال نہیں رکھ رہی اور اس کے ذاتی معاملات میں دخل انداز ہورہی ہے یہ تو ریاست کے فرائض منصبی میں شامل ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں میں مکمل طور پر معاشی مساوات ہو اور یہ بالکل نہ ہو کہ ایک طرف تو لوگ بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز گاڑیوں میں گھومیں اور دوسری طرف ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہوں کہ جو سائیکل خریدنے کی بھی مالی استطاعت نہ رکھتے ہوں تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج حد درجے سے زیادہ بڑھ جائے تووہاں انقلاب آجاتا ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ اور وہ لوگ جو اپنے بال بچوں کی شادیوں پر اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں وہ اس دن سے ڈریں کہ جب ان کا گریبان ہوگا اور غریب آدمی کا ہاتھ یہ جو آج کل ملک میں جگہ جگہ ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں ان کا تجزیہ نفسیاتی طور پر بھی کرنا ضروری ہے تنگ آمد بجنگ آمد جن معاشروں میں لوگوں کو ذریعہ معاش کے مواقع ختم ہو جائیں تو پھر ان میں غریب لوگ اپنے اور اپنے بال بچوں کے پیٹ کی بھوک مٹانے کےلئے ڈکیتی کی وارداتوں پر اتر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دن ملتان میں ایک سیاسی پارٹی کے کارکنوں نے قاسم سٹیڈیم میں جس بے صبری کا مظاہرہ کیا اسے دیکھ کر نہ جانے ہم کو کیوں فیلڈ مارشل ایوب خان کا وہ مشہور مقولہ یاد آگیا کہ پارلیمانی جمہوریت اس ملک کے عوام کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔اس سے پیشتر مقامی انتظامیہ نے سٹیڈیم کے دروازے پر تالے لگا دئیے تھے اور یہاں پر کسی قسم کا جلسہ کرنےکی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کی دانست میں وہاں پر جمگھٹاکرنے سے وائرس کے پھیلنے کا سخت اندیشہ تھا یہ جو زور زبردستی کا کلچر ہمارے معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے یہ جمہوریت کی بقا کے لئے سم قاتل ہے زیادہ دور کی بات نہیں نزدیک کی بات ہے جب ممکنہ فساد اور شر کو روکنے کے مفاد عامہ کی خاطر اور امن عامہ کو یقینی بنانے کیلئے کسی ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دفعہ 144 نافذ کر دیا کرتا تھا تو معاشرے کے افراد اس حکم کا احترام کرتے آج کل تو یہ عالم ہے‘ کہ حکومت کی رٹ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی حکومت کا ہرحکم عوام کا ہر طبقہ ہوا میں اڑا دیتا ہے ان کی سیاسی تربیت کچھ اس طریقے سے کر دی گئی ہے کہ ان کے مزاج میں بلکہ ان کی رگ رگ میں تشدد کا عنصر سرایت کر چکا ہے جس کا تدارک ضروری ہے اور سیاست میں تحمل و برداشت اور ایک دوسرے کی رائے کو وقعت دینے کے کلچر کو فروغ دینا پڑے گا۔