موروثی سیاست۔۔۔۔۔۔

ہماری زندگیوں میں تو اس موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ان جماعتوں میں سے کسی جماعت کے قائد کو نامساعد حالات میں اپنی پارٹی کی قیادت چھوڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو آ گے لے آئے جو بات حیران کن اور ناقابل فہم ہے وہ یہ ہے کہ اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ فلاں فلاں شخص جب وہ اقتدار میں تھا تو اس نے ڈلیور نہیں کیا عوام اسے پھر ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں لے آ تے ہیںگلے روز چین کے وزیر دفاع اور پاکستان کی فوجی قیادت کے درمیان اعلی سطح پر اسلام آباد میں جو بات چیت ہوئی اور جس کے نتیجے میں ان دو ممالک نے یہ جو معاہدہ طے کیا کہ مشکل کی گھڑی میں وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر دشمن کا مقابلہ کریں گے بڑی خوش آئند بات ہے اس معاہدے سے یقینا وطن عزیز کے تمام دشمن ممالک کافی رنجیدہ ہوں گے اور امریکہ کے پیٹ میں بھی یقینا مروڑ اٹھے ہوں گے یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان روز اول سے موجود برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط کیا جائے چین کا ایک عام آدمی اپنے دل میں پاکستان کےلئے جو محبت رکھتا ہے اس کا عملی نمونہ ہم نے اپنے ایک دورہ چین کے دوران نوٹ کیا ہے ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ شنگھائی میں ہم ایک چینی پھل فروش سے فروٹ خرید رہے تھے زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم والی بات تھی نہ ہم چینی زبان سمجھتے تھے اور نہ اس دکاندار کو انگریزی یا اردو زبان آتی تھی اتفاق سے اس وقت اس کی دکان پر ایک بوڑھا چینی بھی بیٹھا ہوا تھا کہ جو انگریزی زبان سمجھتا تھا ہم نے اس بزرگ چینی سے کہا کہ وہ دکاندار سے پوچھے کہ جو فروٹ ہم نے خریدا ہے اس کے لیے ہم کتنے پیسے اسے ادا کریں تو اس نے دکاندار سے پوچھنے کے بعد ہمیں یہ کہا کہ دکاندار کہہ رہا ہے کہ چونکہ آپ پاکستانی ہیں لہٰذا میں آپ سے کسی قسم کا منافع نہیں لوں گا صرف اس کی اصل قیمت وصول کروں گا بلکہ اصل قیمت سے بھی کم قیمت وصول کروں گا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں پر اگر آپ کی جگہ کوئی امریکی یا جاپانی نے مجھ سے یہ پھل خریدے ہوتے تو میں ان سے ڈبل منافع وصول کرتا کہ امریکہ اور جاپان نے ماضی میں ہمیں کئی مرتبہ ذک پہنچائی ہے جب انیس سو پینسٹھ میں پاک بھارت جنگ ہو رہی تھی تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایئر مارشل اصغر خان کو چین بھجوایا تھا کہ وہ اس جنگ میں ہماری ممکنہ امداد کرنے کےلئے چینی حکام سے بات چیت کریں ایئر مارشل اصغر خان نے ہمیں ایک مرتبہ بتایا کہ جب اس ضمن میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم چو این لائی سے بات چیت کی تو چینی وزیراعظم نے مجھے کہا کہ چین کی تمام ایئر فورس پاکستان کی فضائیہ کی امداد کےلئے حاضر ہے آپ جتنے جہاز بھی لے جانا چا ئیں ساتھ لے جائیں پر ساتھ ساتھ انہوں نے معنی خیز انداز میں مسکرا کر ان سے یہ بھی کہا کہ مجھے گمان ہے کہ ہماری اس پیشکش کو ایوب خان شاید قبول نہ کرے کہ وہ امریکہ کو نالاں نہیں کر سکتا ۔بہر حال جو پیش رفت ہوئی ہے وہ کئی حوالوں سے اہم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کو مزید ایک دوسرے کے قریب آنے کے مواقع ملیں گے کیونکہ خطے میں بدلتے حالات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ ،بھارت ، جاپان اور دیگر کئی ممالک خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اکھٹے ہورہے ہیں اوراس کے جواب میں جو اتحاد بنے گا اس کا میں پاکستان اور چین کا اہم کردار ہے ۔