بعد از خرابی بسیار اب حکومتی کارندے یہ کہہ رہے ہیں کے لاہور جلسہ نہیں روکیں گے جس نے جانا ہے جائے کاش کہ اسی قسم کی بات وہ گزشتہ دنوں ملتان میں ہونے والے جلسے سے پہلے بھی کہہ دیتے تو ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا جوملتان کے جلسے کو مس ہینڈل کر کے اٹھائی گئیں کسی بھی مزاحمتی پرتشدد قسم کے جلوس کے ساتھ نبٹنے کےلئے ایک خاص قسم کی ماہرانہ پروفیشنل تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری موجودہ پولیس اور انتظامیہ کو حاصل نہیں ہے حکومت کو چاہئے کہ پہلے تو وہ ایسے احکامات جاری ہی نہ کرے کہ جس پر عمل درآمد میں مشکل کا سامنا ہو۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے تا دم تحریر تو اپوزیشن اور حکومت دونوں نے اپنے اپنے مورچے سنبھال رکھے ہیں اور وہ اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں پر جب تک ان دونوں میں بات چیت نہ ہو گی برف کیسے پگھلے گی؟ دراصل دونوں کےلئے سیاسی زندگی اور موت کا سوال ہے اگر حکومت اپنے موقف سے پھر کر کرپشن کے مقدمات کو لپیٹ دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے اپنے پاو¿ں پر کلہاڑی مار دی ہے اور اگر دوسرا فریق اپنی بات منواے بغیر ٹیبل ٹاک پر راضی ہو جاتا ہے تو اس صورت میں اس کی سیاسی لٹیا ڈوب جانے کا خطرہ ہے ۔ لہٰذا دونوں سخت ترین قسم کے مخمصے میں مبتلا ہیں۔یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ میں اپنی موجودہ عدوی اکثریت کے بل بوتے پر کوئی معنی خیز قانون سازی کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہیں قدم قدم پر انہیں اپنے سیاسی اتحادیوں کی آشیرباد کی ضرورت ہے ‘ جب تک ان کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت نہیں ہوگی وہ کسی صورت میں بھی اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے قوم سے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے اور اقتدار میں ان کا باقی ماندہ عرصہ بھی بالکل اسی صورت گزر جائے گا کہ جس طرح اب تک گزرا ہے لہذا کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ وہ خود قوم سے خطاب کریں اور انہیں بغیر کسی لگی لپٹی غیر مبہم الفاظ میں صاف صاف بتا دیں کہ اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ اس ملک میں کرپشن کے خاتمے کےلئے اور عوام کی فلاح و بہبود کےلئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں تو اس صورت میں پھر اس نے آئندہ الیکشن میں ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے پارلیمنٹ میں نشستیں دلوانی ہوں گی وہ اپنے اس خطاب کے بعد پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں یہی ایک قابل عمل راستہ رہ گیا ہے کہ جس پر چل کے فورا سے پیشتر وہ اس ملک کی بھلائی کےلئے موثر اقدامات اٹھا سکتے ہیں بصورت دیگر اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر لگ یہ رہا ہے کہ ان کا باقی ماندہ اقتدار کا عرصہ بھی اسی طرح گزرے گا کہ جس طرح اب تک گزرا ہے ملک میں جلسے و جلوس ہوتے رہیں گے جن سے نہ صرف ملک کا معاشی نظام متاثر ہوگا لوگوں کے معمولات زندگی بھی بری طرح مجروح ہوں گے اور یہ بات اس ملک کی بقا کےلئے کسی صورت بھی سود مند نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو معاشی طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا امن عامہ با لکل ٹھیک ہو اس ملک میں کوئی بھی سرمایہ کاری نہیں کرتا کہ جس میں روزانہ جلسے و جلوس ہوں اور ہڑتالی اس قدر مضبوط ہوجائیں کہ وہ ریلوے ٹریک پر لیٹ کر ریل گاڑیوں کی آمدورفت بند کر دیں اس قسم کی نرم پالیسی سے حکومتیں نہیں چلا کرتیں اگر موجودہ سیاسی کشمکش کا فوری طور پر کوئی دیرپا فیصلہ نہ ہوا تو خدشہ یہ ہے کہ اپوزیشن والے لاہور کے جلسہ عام کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیں۔