غیر سیاسی لوکل گورنمنٹ اور انتظامیہ

 اگلے روز وزیراعظم صاحب نے دو بڑے اہم معاملات پر گفتگو کی ہے پہلی بات جو انہوں نے کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ موجودہ بلدیاتی نظام سے مطمئن نہیں اور اس کی جگہ وہ ایک خودمختار نیا بلدیاتی نظام لا رہے ہیں دوسری بات جو انہوں نے کی وہ یہ تھی کہ ضلعی سطح پر بدعنوانی سے عوام بہت تنگ ہیں اور یہ کہ وہ سول سرونٹس کیلئے اصلاحات لا رہے ہیں بلدیاتی نظام صرف اسی صورت درست ہو سکتا ہے کہ جب اس کے کاموں میں پارلیمانی اراکین کی مداخلت پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور بلدیاتی انتخابات مکمل طور پر غیر سیاسی بنیادوں پر کرائے جائیں اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی اراکین پر غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کر دیا جائے کہ ان کا کام صرف اور صرف قانون سازی کرنا ہے اور یہ کہ لوکل گورنمنٹ سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کی آڑ میں ہر سال پارلیمانی اراکین کو جو کروڑوں روپے دیئے جاتے ہیں وہ فوراً بند کئے جائیں اور یہ پیسے لوکل گورنمنٹ کے منتخب اداروں کو دینے چاہئیں لیکن یہاں جس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ اکاو¿نٹس افسر موجود ہوتا ہے اسے قانونی طور پر اس بات کا پابند کیا جائے کہ اگر اس کے دائرہ اختیارات میں اگر کوئی منتخب رکن لوکل گورنمنٹ سرکاری بجٹ میں ہیرا پھیری کرتا ہے تو اس کے خلاف بھی پرچہ کٹ سکتا ہے یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ہر ضلع میں حکومت نے جو ڈسٹرکٹ اکاو¿نٹس افسر لگایا ہوا ہے اس کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ ہر بل پاس کرنے سے پہلے اس بات کی سو فیصد تسلی کرے کہ اس کے دائرہ اختیار میں جو بھی سرکاری دفتر واقع ہے اس کا سربراہ اپنے سالانہ بجٹ کا قواعد و ضوابط کے مطابق استعمال کر رہا ہے یا نہیں ؟ آ ڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اس ضمن میں سختی سے کام لینا ہو گا ‘دیہات اور محلے کی سطح سے لے کر ضلع کی سطح تک زنگی کے ہر شعبے میں ترقیاتی کاموں کا تعلق لوکل گورنمنٹ سے ہوتا ہے مثلاً نالیوں اور سڑکوں کی تعمیر پینے کے پانی کی سپلائی سرکاری اراضیات پر تجاوزات کی روک تھام آگ لگ جانے کی صورت میں فائر بریگیڈ کا انتظام گھروں اور عمارات کی تعمیر سے پہلے ان کے نقشوں کی منظوری وغیر ہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ 1947 ءسے لے کر اب تک ہر حکومت نے لوکل گورنمنٹ کی بات تو بہت کی پر اسے صحیح معنوں میں خود مختار نہ بنایا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر مرتبہ ارا کین پارلیمنٹ نے لوکل گورنمنٹ کو خودمختار بنانے کی راہ میں روڑے اٹکائے ‘کسی حاکم نے ان سے یہ نہیں کہا کہ پارلیمنٹ کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لئے آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کرے البتہ اراکین پارلیمنٹ اپنے انتخابی حلقے میں ان ترقیاتی کاموں کی نشانی دہی ضرور کر سکتے ہیں کہ جو وہاں کے رہنے والوں کی ضروریات ہیں ‘سول سرونٹس کے کام کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات بے شک کی جائیں پر یہ اس قسم کی اصلاحات نہ ہوں جو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کی تھیں بیوروکریٹس ڈیلیور کر سکتے ہیں اگر ان کے انتخاب میں کوئی سیاسی اثر رسوخ استعمال نہ ہوا ہو اور میرٹ اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ان کی سلیکشن ہوئی ہو اور پھر مختلف مناصب پر ان کی تعیناتی بھی میرٹ پر کی گئی ہو اور پھر سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اگر وہ کسی کسی حاکم وقت کے کسی غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کریں تو انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔