لگ یہ رہا ہے کہ ہماری زندگیوں میں تو شاید اس ملک سے موروثی سیاست کا خاتمہ نہ ہو سکے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ابھی سے ہی اپنے اپنے جانشین سیاسی اکھاڑے میں اتار دئیے ہیں مریم نواز اور آصفہ بھٹو کی سیاست میں سرگرمیوں کو دیکھ کر نہ جانے ہمارا خیال کیوں بنگلہ دیش کی طرف چلا گیا کہ جہاں دو خواتین سیاسی رہنما حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیاءکا آپس میں ایک عرصے سے ٹاکرا چل رہا ہے ان میں سے کبھی ایک اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ جاتی ہیں تو کبھی دوسری عجیب اتفاق یہ ہے کہ ان دونوں کے والدین یعنی شیخ مجیب الرحمان اور ضیاءالرحمان پر بھی میگا کرپشن کے اسی طرح کے الزامات تھے کہ جس طرح ہمارے ان دو لیڈروں پر ہیں کہ جن کی صاحبزادیوں نے سیاست کی دنیا میں قدم رکھ دیا ہے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا اگر کسی ملک کے عوام فارسی زبان کے اس مقولے پر عمل نہیں کرتے کہ آ ز مودہ را آز مودن جہل است تو پھر ان کے بارے میں بجز اس کے اور کیا کہا جا سکتاہے کہ ان کا پھر اللہ ہی حافظ! اس ملک میں غریب عوام کے حالات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتے کہ جب تک ان میں اتنا سیاسی شعور پیدا نہ ہو جائے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں اور بار بار ان لوگوں کے بہکاوے اور جھانسے میں نہ آ ئیں کہ جنہوں نے کبھی ان کو نیشنلزم تو کبھی سوشلزم تو کبھی کسی اور پرکشش نعرہ لگا کر گمراہ کیا الیکشن میں ان کے ووٹ حاصل کئے اور ایوان اقتدار میں گھس کر پھر جی بھر کر اپنی تجوریاں بھریں جس کا نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا کہ آج اس ملک کے عوام الناس معاشی طور پر خجل خوار ہیں خدا لگتی یہ ہے کہ آج اس ملک کا ایک عام آدمی اپنے سیاسی رہنماو¿ں کے منہ سے جمہوریت کی گردان سنتے سنتے تنگ آ چکا ہے وہ برملا یہ سوال کر رہاہے کہ اگر کوئی جمہوری نظام اس کو دو وقت کی روٹی بھی فراہم نہ کر سکے تو اس کا کیا فائدہ۔بھوکا پیٹ فارسی بولتا ہے ایک پرانا مقولہ ہے کہ بھوکے شریف سے ڈرنا چاہیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کے غریب عوام ان ممالک سے کیوں نہ متاثر ہوں کہ جہاں جمہوریت کا ڈھونگ تو نہیں رچایا جاتا پر وہاں کے حکمرانوں نے ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہیں کہ جن کی وجہ سے ان ممالک کی دولت اور قدرتی وسائل چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتے جہاں حکومت جو پالیسی بھی بناتی ہے وہ عوام دوست ہوتی ہے نہ کہ خواص دوست اب تو ہم نے کئی لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس قسم کی جمہوریت کے ہمارے سیاستدان دن رات گن گاتے ہیں وہ اپنے فائدے کی بات ہی دیکھتے ہیںیہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نے اس ملک کا کیا حشر کر دیا ہے یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان اگرچہ ایک زرعی ملک ہے پر بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی پانی کی قلت زرخیز زمینوں پر بے دریغ تعمیرات وغیرہ نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیاہے کئی شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں فوری پر بعض اقدامات لینے ہوں گے ہمیں پانی کے ذخائر کی تعمیر کے علاوہ ڈسٹریبیوشن سسٹم کو بہتر کرنا ہوگا ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر توجہ دینا ہو گی بنجر زمینوں کو آباد اور زرخیز زمینوں کو تعمیرات سے بچانا ہوگا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمیں اس ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو لگام دینا ہوگی ‘جس رفتار سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اگر ہم نے ابھی سے اس کو موثر طور پر کنٹرول نہ کیا تو بھلے ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں کتنی ہی ترقی کیوں نہ کریں یہ بڑھتی ہوئی آبادی اسے چاٹ جائے گی ۔