وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر اپوزیشن کی جماعتوں نے استعفے دے دئیے تو وہ فوری طور پر ضمنی الیکشن کرنے کا اعلان کریں گے‘ ہماری دانست میں ان کے پاس ایک دوسرا آپشن بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ یہ محسوس کریں کہ اپوزیشن کے ایجی ٹیشن کی وجہ سے ملک میں انتشار بڑھ رہا ہے اور پارلیمنٹ عضو معطل بن چکی ہے اور ضروری قانون سازی میں اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے تو وہ خود بھی پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے ملک میں نئے الیکشن کا اعلان کر سکتے ہیں اس صورت میں پھر ان کے پاس یہ جواز بنتا ہے کہ وہ ووٹرز کو بغیر کسی لگی لپٹی کے یہ کہہ سکیں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اپنے الیکشن کے منشور پر کماحقہ عمل درآمد کرے تو اس کےلئے انہیں پھر ان کی پارٹی کو بھاری اکثریت سے الیکشن میں کامیاب کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر وہ قوم سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکتی سیاست کے بھی بڑے عجیب رنگ ہوتے ہیں اس میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں ، اسے کیاکہا جا سکتا ہے کہ یا 1977 کا وہ دور تھا جب پی پی پی ایک طرف تھی اور ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتیں جو آ ج پی ڈی ایم کا حصہ ہیں دوسری طرف اور یا 2020 کو دیکھئے کہ جب عمران خان تن تنہا 11سیاسی پارٹیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں کہ جن میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے اور یہ پی پی پی وہ پارٹی ہے کہ جس کی ہمیشہ سے پی ڈی ایم کے اندر موجود سیاسی پارٹیوں سے ان بن رہی ہے پی ڈی ایم کی فی الحال تو تمام توجہ لاہور کے جلسے کی طرف ہے کہ جو تیرہ دسمبر کو منعقد ہو رہا ہے گزشتہ منگل کے دن اسلام آباد میں اس نے جو فیصلے کیے ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فی الحال اپنے تمام سیاسی کارڈ اپنے سینے سے لگا کر بیٹھی ہوئی ہے اور دھیرے دھیرے حکومت پر سیاسی دباو¿ ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں ایک اعصابی جنگ جاری ہے اور اس اعصابی جنگ میں وہ پارٹی جیتے گی کہ جس کے اعصاب مضبوط ہوں گے ہوسکتا ہے ہمارا اندازہ غلط ہو پر بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی پی پی شاید ابھی تک ذہنی لحاظ سے مکمل طور پر اس بات کےلئے تیار نہیں کہ وہ حکومت سندھ سے دستبردارہو جائے قومی اسمبلی ہو کہ سینٹ یا صوبائی اسمبلیاں ہوں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ان کے اراکین نے اسمبلیوں میں پہنچنے کےلئے کروڑوں روپے الیکشن میں خرچ کیے ہیں اور اب ان کی ریکوری کا وقت ہے ابھی بمشکل انہوں نے اسمبلیوں میں ڈھائی سال پورے کیے ہیں اور مزید ڈھائی سال باقی ہیں ان کا دل ڈوبتا ہے اگر کوئی اب ان کو اسمبلیوں سے نکال دے یا اس بات پر مجبور کرے کہ وہ استعفیٰ دے دیں کیونکہ ہر ماہ ان کو بطور رکن اسمبلی لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور دیگر مالی مراعات ملتی ہیں استعفیٰ دینا ان کےلئے اس لیے بھی بہت بڑا دھچکا ہے آج کل ملک کے سیاسی حلقوں میں اس بات پر بھی بحث چل نکلی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے کمال چالاکی سے اپنی اپنی پارٹی کے اندر ایسے ونگ بنا رکھے ہیں جنہیں انہوں نے قانون کی زد میں آنے سے بچنے کےلئے رضا کار کا نام دے رکھا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں حکومت کے متعلقہ اداروں نے رجسٹرڈ بھی کر رکھا ہے ان ونگز کے جوانوں نے اس قسم کا یونیفارم اور ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں جو فوجی یونیفارم یا پولیس کے یونیفارم سے حد درجہ مماثلت رکھتی ہیں سیاسی پارٹی کے رہنماو¿ں کا یہ کہنا کہ انہوں نے یہ رضا کار تنظیمیں جلسوں کے دوران نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے بنائی ہوہی ہیں ،یہ کوئی جواز نہیں کیونکہ جلسوں اور جلوسوں میں امن عامہ قائم رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ کام ہر حکومت وقت پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے کرتی ہے ۔