ففتھ جنریشن وارفیئر

موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار صاحب نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ پاکستان کو ففتھ جنریشن وارفیئر کا سامنا ہے اور پاکستان کے متعلق دشمن ممالک کے عزائم ناپاک ہیں لیکن پاک فوج اس سے باخبر اور پوری طرح چوکس ہے اور اس سے نمٹنے کےلئے پوری طرح تیار اور سرگرم عمل ہے۔یہ”ففتھ جنریشن وارفیئر“ یعنی”پانچویں نسل کی جنگ“ آخر کس بلا کا نام ہے، آئیے اس کے پس منظر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔جدید امریکی جنگی امور کے ماہرین نے بیسویں صدی کے آخر میں ماضی میں حاصل کردہ کافی عملی جنگی تجربات و مشاہدات کے بعد دنیا میں برپا جنگوں کو پانچ اقسام میں تقسیم کر دیا۔ان امریکی جنگی ماہرین نے پہلی جنگ عظیم کو فرسٹ جنریشن وارفیئر ( پہلی نسل یا قِسم والی جنگ ) کا نام دیا۔ اس جنگ میں مختلف قوموں کی فوجوں نے ایک دوسرے پر حملے کرکے اپنے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا۔ پہلی جنگ عظیم یعنی فرسٹ جنریشن وارفیئر میں دشمن ملکوں کی افواج کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا جبکہ سویلین (عوام الناس) کو کم نشانہ بنایا گیا۔ اس جنگ میں ایک ملک کےلئے فوج کی عددی برتری کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کو سیکنڈ جنریشن وارفیئر کا نام دیا گیا اور اس میں بہتر جنگی ٹیکنالوجی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا گیا۔ اس جنگ میں ہر ملک نے اپنے دشمن ملک کے فوج کے ساتھ ساتھ اس کے عوام الناس کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تاکہ فوج کو ڈی مورلائز کرکے جلد از جلد جنگ جیتی جا سکے۔ اسی وجہ سے کروڑوں انسان دوسری جنگ عظیم میں لقمہ اجل بن گئے۔ دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ امریکہ کے ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے ہو گیا اور اسی طرح امریکہ دنیا کی نظروں میں واحد ایٹمی سپر پاور بن گیا۔ اس جنگ کے بعد پوری دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کیلئے دوڑ شروع ہو گئی۔ جب سوویت یونین 1950ء کے لگ بھگ ایٹمی طاقت بن گیا تو دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ کوئی امریکہ تو کوئی سوویت یونین کے زیر اثر چلا گیا۔ اس طرح دو طاقتوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی۔ جسے امریکی جنگی ماہرین نے تھرڈ جنریشن وارفیئر کا نام دیا ہے۔ اس قسم کے جنگ میں بنیادی ہدف مخالف ملک کو کسی پراکسی جنگ میں مصروف کرکے اسکی معیشت کو زچ کرکے گرانا ہوتا ہے۔اس جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین نے اپنے زیر اثر مختلف ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف جنگی محاذ کھولے۔ اس کی مثال کیوبا اور ویت نام کی جنگ ہے۔ ویت نام کی جنگ میں امریکہ کو ویت نامیوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوئی۔ اس پر سوویت یونین نے فتح کا جشن منایا کیونکہ ویت نامیوں کو روسیوں کی مدد حاصل تھی۔ امریکہ نے بدلہ لینے کےلئے افغانستان کا جنگی محاذ کھولا اور حالات ایسے پیدا کئے کہ سوویت یونین نے 1979ء میں افغانستان پر فوجی دھاوا بول کر قبضہ جما لیا۔ پھر امریکہ نے اتحادیوں سے مل کر افغان مجاہدین کے ذریعے دس سال کی گوریلا جنگ کے نتیجے میں سوویت یونین کو اندر سے معاشی طور پر کھوکھلا کر دیا اور اس طرح وہ مجبور ہو کر افغانستان سے نکل گیا کیونکہ اسکی معیشت اندرونی طور پر کھوکھلی ہو گئی تھی۔سوویت یونین کے انہدام کے نتیجے میں بہت سارے سنٹرل ایشین ممالک وجود میں آگئے۔ 1990ءکی دہائی میں سپر پاور سوویت یونین ٹوٹ کر روس بن گیا۔ یہی سے پوری دنیا پر امریکی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ سی آئی اے نے اپنے مذموم عزائم کو مزید بڑھانے اور معدنی وسائل سے مالامال مگر عسکری طور پر کمزور ممالک پر قبضہ کرنے کےلئے فورتھ اور ففتھ جنریشن وارفیئر کی تخلیق کی۔ فورتھ جنریشن وارفیئر میں دہشت گردی کو سپورٹ کیا گیا اور دہشت گرد پیدا ہوئے یا پیدا کیے گئے۔ اس طرح کے جنگ میں امریکہ مخالف ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو بھی فروغ دینا اور مسلح سپورٹ کرنا ہے تاکہ دشمن ملک کو گرایا جا سکے۔ سوویت یونین سے روس بنانے اور روس کو مزید کمزور کرنے کیلئے سی آئی اے نے چیچنیا کی مسلح جدوجہد کو مزید ہوا دی اور چیچن جنگجوﺅں کو ہر طرح سے مسلح کیا گیا۔ روس کے حکمران ولادیمیر پوٹن نے ماضی میں چیچنیا پر باقاعدہ حملے کیے۔ جوابی کاروائیوں میں چیچن جنگجوﺅں نے بھی چیچنیا کے اندر اور باہر یعنی روس میں خوب تباہی مچائی۔ پوٹن نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیچنیا کے مسلمانوں کے ساتھ امن معاہدہ کرکے انکی سالمیت اور خودمختاری کو تسلیم کر لیا اور یوں روس میں امن آگیا۔ لیبیا اور شام کو اسی ڈاکٹرائن کے تحت تباہ و برباد کیا گیا۔کچھ ممالک ایسے بھی نکلے جو بہت مالی اور جانی نقصانات اٹھانے کے باوجود بھی فورتھ جنریشن وارفیئر کا شکار نہ بن سکے۔ اس کی وجہ اس کے عوام کی آپس میں یکجہتی اور اپنے باہمی عقائد سے جڑاو¿ اور وطن پرستی ہے۔ اس لیے انہی سی آئی اے کے جنگی ماہرین اور منصوبہ سازوں نے ایک اور وار ڈاکٹرائن ایجاد کیا جسے انہوں نے ففتھ جنریشن وارفیئر کا نام دیا۔ اسے ”ڈی سینٹریلائزڈ اربن وارفیئر“ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں جنگ دشمن ملک کے بارڈرز پر نہیں بلکہ ملک کے اندر شہروں میں لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ میں ہر اس زاویے اور طریقے کو زیر استعمال لانا ہوتا ہے جس سے اس ملک کو جلد از جلد اور اندرونی طور پر ناکام ریاست بنا کر گرانا ہوتا ہے۔ اس جنگ میں سٹیٹ ایکٹرز ( کرپٹ حکومتی اراکین اور میڈیا ہاو¿سز وغیرہ ) اور نان سٹیٹ ایکٹرز (دہشت گردوں) کو استعمال میں لانا ہوتا ہے۔ مذہبی منافرت کو ہوا دینا، مذہبی شخصیات کا قتل عام جبکہ کرپشن، بدعنوانیوں اور ناانصافی کا فروغ اس میں شامل ہیں۔مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اسی ڈاکٹرائن پر عملی طور پر کام کرنے والے اور انہیں تباہی و انتشار سے دوچار کرنے والے ریٹائرڈ امریکی کرنل رولف پیٹرز کی کتاب ”دی وارز آف بلڈ اینڈ فیتھ“ ہماری آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہے۔ اس کرنل نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ اکیسویں صدی میں جنگیں نسل، قومیت اور عقیدے کی بنیاد پر لڑی جائینگی۔ اسی ڈاکٹرائن کے تحت کافی مسلم ممالک کو اب تک توڑا جا چکا ہے۔