اپوزیشن کے رہنما اب فروری کے وسط میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کی بات کر رہے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر حکومت وقت نے 31 جنوری تک استعفے نہ دیا تو بالفاظ دیگر حکومت کو سستانے کیلئے ڈیڑھ دو مہینے کا وقفہ مل گیا ہے اقتدار میں حکومت کا ہنی مون پیریڈ تو کب کا ختم ہو چکا ہے کوئی بھی حکومت اپنے عوام کو خالی خولی وعدوں پر زیادہ عرصے تک ٹرخا نہیں سکتی حزب اختلاف کے مردہ جسم میں کبھی بھی جان نہ پڑتی اگر اشیاءخوردنی میں مہنگائی کے جن کو حکومت نے بوتل سے باہر نہ آ نے دیاہوتا اسے اپوزیشن نے اتنی زک نہیں پہنچائی کہ جتنی اسے اپنی ناقص کارکردگی کے ہاتھوں پہنچی ہے اس پر طرہ یہ کہ کورونا وائرس نے بھی جیسے اسی وقت ہی آنا تھا معاشی میدان میں حکومت نے اب تک جو تھوڑا بہت کام کیا تھا اس پر اس نے پانی پھیر دیاہے۔ سوچ طلب بات البتہ یہ ہے کہ بالفرض محال اگر اپوزیشن کے رہنما فروری میں ایک لشکر جرار کو لے کر اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں اور وفاقی دارالحکومت کا نظام زندگی درہم برہم کر دیتے ہیں کہ حکومت وقت کو حالات معمول پر لانے کیلئے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑتا ہے تو کیا اپوزیشن ایسا کر کے ملک میں کوئی اچھی سیاسی روایت قائم کرے گی؟کیا اس عمل سے ملک میں ایک غلط قسم کی روایت قائم نہیں ہو جائے گی؟کل کلاں جب بھی کوئی سیاسی گروپ کسی بات پر حکومت سے نالاں ہوا کرے گا تو وہ اسی روایت پر عمل پیرا ہوکر ایک لشکر کی صورت میں اسلام آباد کا رخ کیاکرے گا اور بزور شمشیر حکومت وقت کا دھڑن تختہ کر دے گا اس طرح اسی قسم کا ملک میں ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا اور قوم ہر وقت سیاسی انتشار کا شکار رہے گی حکومت وقت کو گرانے کا آئین پاکستان کے اندر ایک طریقہ کار موجود ہے اگر اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ حکومت عوام کی توقعات پر پورا نہیں ا تری اور وہ عوام کی تکالیف کا ازالہ کرنے میں ناکام ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتی ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کوئی بھی اس بات پر خوش نہ ہو کہ وہ لانگ مارچ سے حکومت کو گرا کر کوئی بڑا تیر مار دے گا کل کلاں ان لوگوں کے ساتھ بھی اسی قسم کا عمل ہوسکتا ہے جو لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو گرا کر کسی نہ کسی طریقے سے ایوان اقتدار میں دوبارہ گھسنا چاہتے ہیں ہاں البتہ حزب اختلاف کے ارکان کا اسمبلیوں میں اپنی نشستوں سے استعفے دے کر حکومت کو نئے انتخابات پر مجبور کرنا قدرے بہتر رستہ ہوگا کہ اس سے ملک میں لشکر کے زور پر حکومت بدلنے کی کم ازکم روایت یا مثال تو قائم نہیں ہو گی۔ کسی بھی لشکر کے بل بوتے پر کسی منتخب حکومت کو بدلنا اتنا ہی خطرناک عمل ہے جتنا کہ مارشل لاءسے اور اس قسم کے طریقہ کار سے جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی ہیں بعض باتیں پبلک میں کرنے کی نہیں ہوتیں کہ اس سے عوام کو غلط سگنل جا سکتے ہیں لہٰذا ان سے اجتناب ضروری ہوتا ہے۔سیاست دان کسی اور سے گلہ کرنے کے بجائے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں تو بہتر ہوگا ان کو 1948 سے لے کر 1958 تک 1971 سے لے کر 1977 تک اس کے بعد 1990 سے لے کر 1997 تک اور پھر 2007 سے لے کر آج تک حکومت کرنے کیلئے ایک لمبا عرصہ ملا جو لگ بھگ 40 سالوں پر محیط ہے کوئی ان سے ذرا یہ تو پوچھے کہ انہوں نے اس عرصے میں کونسا قابل فخر کام کیا یہ وہ بالکل نہ کہیں کہ ان کو موقعہ نہیں ملا 40 برس کا عرصہ ایک بہت بڑا وقت ہوتا ہے اگر وہ صدق دل سے عوام اور اس ملک کی خدمت کرتے تو اس کی کایا پلٹ سکتے تھے ۔