افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کےلئے کبھی اسلام آباد تو کبھی عرب امارات میں اور کبھی کبھی کابل میں بھی پاکستان افغانستان امریکہ اور طالبان کے سفارتکار آپس میں ملتے جلتے رہتے ہیں یہ سلسلہ ایک عرصہ دراز سے چل رہا ہے پر ابھی تک سرنگ کے آخر میں روشنی کی کوئی کرن صحیح معنوں میں نظر نہیں آرہی یہ آ نیاں اور جانیاں نہ جانے کب ختم ہوں ان پے در پے ملاقاتوں کو دیکھ کر ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور سردار سورن سنگھ کی ان لا تعداد ملاقاتوں کا سلسلہ یاد آجاتا ہے جو کسی زمانے میں وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کےلئے کیا کرتے تھے کبھی ان کی ملاقات شملہ میں ہوتی تھی تو کبھی مری میں یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب پاکستان کے اور سردار سورن سنگھ بھارت کے وزیر خارجہ تھے ان بے سود ملاقاتوں پر استاد دامن نے نے پنجابی زبان میں ایک بڑا خوبصورت شعر کہا تھا
کدی شملہ جا ریاں اے تے کدی مری جا ریاں اے
کی کری جا ریاں اے کی کری جا ریاں اے یعنی کبھی شملہ جا رہے ہو تو کبھی مری جا رہے ہو کیا کئے جا رہے ہو کیا کئے جارہے ہو ؟ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہاں حالات اس وقت تک ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے کہ جب تک وہاں بیرونی مداخلت ختم نہ ہو بھلے وہ پاکستان کے خلاف بھارت کی ہو یا پھر کسی اور ملک کی‘ پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف اپنی جارحانہ کاروائیوں کےلئے استعمال کر رہا ہے یہ تو تصویر کا ایک پہلو ہے ہم سے بھی اس حد تک غلطی ضرور ہوئی جو ہم نے امریکہ کی اندھی تقلید میں بعض ایسے اقدامات اٹھائے کہ جوہمیں نہیں اٹھانے چاہئے تھے اب امریکہ افغانستان سے کیوں نہیں نکلتا اسامہ بن لادن تو اب اس دنیا میں موجود نہیں کہ جس کو پکڑنے یا مارنے کےلئے اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور اپنے فوجی اس کی سرزمین پر اتارے اب وہ کیوں افغانستان سے اپنی فوجیں مکمل طور پر نہیں نکال رہا کئی سیاسی مبصرین کا تو یہ خیال ہے کہ اب وہ چین کے لئے درد سر پیدا کرنے کے لئے اس خطے میں اپنی فوج رکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کے اندر کوئی شورش پیدا کرے وسطی ایشیا کے معدنی وسائل اور دولت پر بھی اس کی بری نظر ہے امریکہ کے صدارتی انتخاب کے بعد وہاں ایک نئی قیادت چند دنوں میں اقتدار سنبھالنے والی ہے لگ نہیں رہا کہ نیا امریکی صدر جو بائیڈن اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی سے کوئی زیادہ مختلف پالیسی اپنائے گا وہ وہی کام کرے گا جو پینٹاگون اسے کرنے کو کہے گا پاکستان کو بہرحال نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ دوبارہ امریکہ کے کسی جال میں نہ پھنسے اور نہ ہی اس کے لیڈروں کے کسی بہکاوے میں آئے ہمارے لئے اگر کسی سپر پاور کی دوستی زیادہ موزوں ہو سکتی ہے تو وہ صرف ہمارے عظیم ہمسائے چین کی ہو سکتی ہے یہ درست ہے کہ چین اگر سی پیک میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اس میں اس سے اس کی معیشت کو چار چاند لگنے والے ہیں پر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس عظیم الشان ترقیاتی منصوبے سے ہم بھی کافی حد تک فائدہ اٹھائیں گے چین کی پاکستان کے ساتھ دوستی واقعی لا زوال ہے۔