ریڈیو کے ساتھ اتنی بے اعتنائی کیوں ؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو آج بھی خبر رسانی کا سب سے سستا اور تیزرفتار ذریعہ ہے پر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے جو محکمے حکومت کی بے اعتنائی کا شکار ہیں ان میں ریڈیو پاکستان سرفہرست ہے ریڈیو پاکستان سے حکومت کی توجہ اس دن سے کم ہونے لگی جس دن سے ملک میں ٹیلی ویژن کا ظہور ہوا حالانکہ یہ بڑی عجیب بات لگتی ہے اور ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا ‘برطانیہ ‘امریکہ ‘آسٹریلیا اور جرمنی وغیرہ حتیٰ کہ بھارت میں بھی ٹیلی ویژن کی آمد سے وہاں ریڈیو کی اہمیت بالکل کم نہیں ہوئی اور نہ ہی انکے سامعین کی تعداد میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے آ ج بھی بی بی سی ریڈیو کے پروگراموں کے سامعین کی تعداد بی بی سی ٹیلی ویژن چینلز کے پروگراموں کے سامعین اور ناظرین کی تعداد سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد تقریبا ًبیس برس کے عرصے تک ریڈیو پاکستان سے مختلف نوعیت کے پروگرام نشر ہوا کرتے تھے جن میں خبرناموں کے علاوہ ڈرامے شعر و ادب اور موسیقی کے پروگرام شامل تھے ‘ان دنوںبراڈکاسٹرز کے تلفظ پر کافی دھیان دیا جاتا تھا ‘بخاری برادران یعنی زیڈ اے بخاری اور پطرس بخاری کا برصغیر کی براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں بہت بڑا مقام ہے ‘شمع سے شمع روشن ہوتی ہے جب تک وہ ریڈیو پاکستان کے ساتھ منسلک رہے یا جب تک ان کے ہاتھوں تربیت حاصل کرنے والے ان کے شاگرد براڈ کاسٹرز یا بقول کسے ان کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے افراد ریڈیو پاکستان کے ساتھ منسلک رہے اس وقت تک ریڈیو پاکستان کا معیار کافی بلند رہا اس دور میں ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروس بھی بہت جاندار ہوا کرتی تھی ‘آکاش وانی یا دیگر ریڈیو سٹیشنز پاکستان کے خلاف دروغ بیانی پر مبنی جو پروپیگنڈا کیا کرتے تھے اس کا روزانہ کی بنیادوں پر ریڈیو پاکستان نہایت موثر توڑ پیش کردیا کرتا تھا اور اس معاملے میں وہ اپنا قرض نہیں چھوڑتا تھا خاص طور پر فارسی اور پشتو زبان میں ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروس بڑی جاندار ہوا کرتی تھی یہ سب کچھ انیس سو ستر کے بعد ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے ‘پاکستان فلم انڈسٹری کے کئی معروف اداکار ریڈیو پاکستان کے ڈرامہ سیکشن کی دریافت تھے ‘مثلا ًمحمد علی مصطفی قریشی ‘ آغا طالش ‘قوی خان اور ابراہیم نفیس وغیرہ وغیرہ ‘ریڈیو پاکستان کوئی عام سا سرکاری ادارہ نہیں اس کی ایک اپنی خصوصیت ہے جسے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے نظرانداز کیا جارہا ہے ‘ ہمیں اچھی طرح یاد ہے ایک دور ایسا بھی تھا جب ریڈیو پاکستان پشاور سے ہر سال بہار کے موسم میں اس کے سبزہ زار پر تین راتوں پر محیط جشن بہاراں کے نام سے موسیقی کا ایک پروگرام براہ راست پاکستان کے تمام ریڈیو سٹیشنوں سے پیش کیا جاتا تھا‘ ایک رات ہلکی پھلکی موسیقی دوسری رات فوک موسیقی اور تیسری رات صرف اور صرف کلاسیکی موسیقی کےلئے وقف ہوتی‘ موسیقی کے اس پروگرام میں ملک بھر سے نامور گلوکار حصہ لیتے یہ محافل رات گئے تک جاری رہتیں ‘ہم نے ریڈیو پاکستان پشاور کے سبزہ زار پر استاد امانت علی ‘فتح علی ‘استادسلامت علی ‘نزاکت علی ‘فردوسی بیگم ‘روشن آرا ءبیگم فریدہ خانم ‘مینا لودھی ‘اقبال بانو ‘مہدی حسن اور انہی کے پائے کے کئی اور گلوکاروں کو راگ راگنیاں چھیڑتے سنا ہے ان دنوں ریڈیو پاکستان پشاور اس بلڈنگ میں واقع تھا کہ جہاں اب سپریم کورٹ آف پاکستان کی رجسٹری برانچ کام کر رہی ہے‘اب تو ایک عرصہ ہوگیا ہے کہ ریڈیو کو بیک سیٹ پر بٹھا دیا گیا ہے ‘ ماضی کے کئی مقبول عام پروگرام بند کر دیئے گئے ہیں‘وقت آ گیا ہے کہ اب ایک سروے کے ذریعے یہ معلوم کیا جائے کہ ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے قیام سے اس کانسپٹ کے خالق آخر کیا حاصل کرنا چاہتے تھے ان کے پیش نظر آخر کیا مقاصد تھے اور کیا وہ حاصل ہو گئے ہیں ‘آج کا دور میڈیا کا دور ہے اور اس میں میڈیا سے متعلق ہر محکمہ اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے ریڈیو ایک ایسا محکمہ ہے کہ جس سے حکومت اگر ایک طرف دشمن کے پروپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کےلئے مختلف زبانوں میں نشریاتی پروگرام پیش کر سکتی ہے تو دوسری طرف معاشرے کی اصلاح کےلئے کئی تعلیمی اور معلوماتی پروگرام بھی براڈکاسٹ کر سکتی ہے ۔