سویڈن: ہم ایک عرصے سے پلاسٹک کے کوڑے سے پریشان ہیں جو ہر ماحول کے جاندار کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے لیکن اب ثبوت مل چکے ہیں کہ پلاسٹک انسانی صحت کیلئے انتہائی مضر ثابت ہوسکتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک میں ”اینڈو کرائن ڈسرپٹنگ کیمیکل“ یا ”ای ڈی سی“ پائے جاتے ہیں۔ اینڈو کرائن غدود کے نظام کو متاثر کرنے سے کینسر‘ ذیابیطس‘ اعصابی اور بچوں کی رحمِ مادر میں خرابی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں بھی پلاسٹک میں دیگر کئی زہریلے مرکبات دریافت ہوئے ہیں۔ عالمی اینڈو کرائن سوسائٹی اور آلودہ اجزاء کو ختم کرنے میں مصروف عالمی نیٹ ورک (آئی پی ای این) نے مشترکہ طور پر یہ تحقیق کی ہے اور اسے دنیا بھر کیلئے خطرے کی ایک گھنٹی قرار دیا۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایک ہزار اقسام کے پلاسٹک میں ای ڈی سی موجود ہوتا ہے ان میں بسفینول اے‘ تھیلیٹس‘ پولی اور پر فلوروالکائل اجزا‘ ڈائی آکسنز‘ یووی اسٹیبلائزر اور کیڈمیئم سمیت دیگر مضر اجزاء شامل ہیں۔ یہ پلاسٹک پیکنگ‘ ادویہ‘ کھلونوں‘ الیکٹرونکس‘ صنعتوں اور گاڑیوں سمیت ہر جگہ استعمال ہورہے ہیں۔
مجموعی طور پر پلاسٹک میں بہت سارے کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں اور ان میں 144 اجزاء کو انسانی صحت کیلئے مضر قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح اب انسانی جسموں میں ای ڈی سی کی موجودگی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔
رپورٹ کے مرکزی مصنف جوڈی فلوز کہتے ہیں کہ اپنے گھروں میں پلاسٹک کے باریک ذرات ہمارے جسم میں جاکر ای ڈی سی کو بدن کے اندر اتارتے ہیں۔
اس ضمن میں بڑے پیمانے پر عمل اور تدابیر کی ضرورت ہے۔ سویڈن میں کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر ڈاکٹر پاؤلینا دمدیپولوف نے کہا ہے کہ اگر حاملہ خواتین پلاسٹک سے متعارف ہوں تو پلاسٹک میں موجود ای ڈی سی بچے کے ڈی این اے کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔