سیاسی اختلافات

 یہ روز روز کے دھرنوں اور ٹریفک جام سے خلقت خدا کے ناک میں دم آچکا ہے یہ جو دھرنوں کا غلط طریقہ کار ہمارے سیاسی کلچر کا جزءلاینفک بن چکا ہے یہ بھلا کیسے ختم ہو گا یہ تو دن بہ دن پھیل رہا ہے،جس کسی نے بھی اس رسم کی بنیاد رکھی اس نے یہ نہ سوچا کہ وہ اس معاشرے کو کتنے بڑے خلفشار میں مبتلا کر رہا ہے ہمارے اکثر رہنماو¿ں نے عوام الناس کو یہ تو سکھلا دیا ہے کہ تمہارے کون کون سے حقوق ہیں اور ان کو حاصل کرنے یا منوانے کے لیے کون کون سے حربے استعمال کئے جاسکتے ہیں پر انہوں نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ ان کے فرائض کیا کیا ہیں ایک مرتبہ ایک سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کیا خوبصورت بات اپنی قوم سے کہی تھی وہ یہ تھی کہ ہر امریکی اپنے حقوق کی بات تو کرتا ہے اور فریاد کرتا ہے کہ امریکہ نے اسے کیا دیا ہے پر وہ اپنے آ پ سے یہ سوال۔نہیں کرتا کہ آخر اس نے اپنے وطن کو کیا دیا ہے‘جمہوریت کا یہ مطلب تو نہیں ہوتا جوہمارے اکثر زعماءلے رہے ہیں اس سے تو وہ اس ملک کو طوائف الملوکی اور انتشار کی جانب دھکیل رہے ہیں کاش کہ روز اول سے ہی اس ملک میں پرتشدد قسم کی سیاست اور ایجی ٹیشن کے بجائے حکومتوں اور اپوزیشن نے اپنے درمیان اختلافات پارلیمنٹ کے فلور پر حل کرنے کی رسم ڈالی ہوتی تو کتنا ہی اچھا ہوتا جس کسی نے بھی اس ملک میں تشدد پر مبنی سیاست کی بنیاد ڈالی ،اس نے ملک و قوم کے ساتھ بھلا نہیں کیا۔ عمران خان نے اگلے روز کہا کہ اگر اپوزیشن والے سات دن تک دھرنا دیں تو پھر میں استعفیٰ دینے پر سوچوں گا اس پر ایک منچلے نے کہا کہ اگر وہ واقعی سات دن دھرنا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا ہماری دانست میں اگر اس قسم کے بیانات سے اجتناب کیا جائے تو بہتر ہے نشہ کسی چیز کا بھی ہو بڑی خراب چیز ہے اسی طرح اقتدار کا نشہ ان افرادکو پریشان کر دیتا ہے کہ جنہیں ان کا چسکا پڑا ہوا ہو اور وہ ایوان اقتدار سے باہر ہوں وہ پھر اقتدار میں آنے کےلئے اسی طرح تڑپتے ہیں کہ جس طرح پانی سے باہر پھینک دی جانے والی مچھلی، عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ہمارے ہاں سیاستدان کنارہ کشی سے گریز کرتے ہیں ان میں نہ تو کوئی جنوبی افریقہ کا نیلسن منڈیلا جیسا لیڈر ہے اور نہ تنزانیا کا جولیس نیا رارے جیسا رہنما کہ جنہوں نے ازخود بالترتیب جنوبی افریقہ اور تنزانیہ کے اعلی ترین مناصب سے رضاکارانہ طور پر سنیاس لے لیا تھا‘ برطانیہ کے سابق وزیراعظم سر ونسٹن چرچل ہمارے آج کل کے عمررسیدہ سیاستدانوں سے زیادہ بوڑھے نہ ہوں گے پر ایک دن وہ برطانیہ کی ملکہ کی خدمت میںپیش ہوئے اور انہیں اپنا استعفیٰ پیش کردیا ملکہ نے انہیں حیرت سے کہا کہ ابھی تو آئین کی رو سے آپ مزید چار سال وزیر اعظم رہ سکتے ہیں اس پر چرچل نے ملکہ کو کہا کہ یہ بات درست ہے پر وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اب انہیں نئے آئیڈیاز نہیں آ رہے اس لیے وہ اب وہ اپنا یہ منصب چھوڑ کر جا رہے تا کہ ان کی جگہ کوئی جوان وزیر اعظم ا ٓسکے۔