اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں پیدا کرنے کے بعد گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم پہچانے جا سکو اور تمہارا تعارف ہو۔ پہلے قبیلوں کے نام اور پھر افراد کے نام رکھ کر ایک دوسرے کو پکارنے میں آسانی پیدا کی۔ ورنہ جنگل کے جانوروں کی طرح کسی کو کسی کی پہچان نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسکے نزدیک وہ لوگ مکرم ہیں جو تقوٰی دار ہیں۔ یہ اللہ اور اسکے بندوں کے درمیان رشتوں کا تعلق ہے۔ بندوں کا بندوں کیساتھ رشتہ اور پہچان قبیلوں کے ذریعے ہے۔ یہ قبیلے نہ صرف ایشیائی بلکہ یورپی، امریکی اور افریقی ممالک میں بھی عام ہیں۔آج ہم ایک ایسے قبیلے اور اسکے جد امجد کے بارے میں ذکر کرنے جارہے ہیں جو اگرچہ بہت جانا پہچانا ہے لیکن نئی نسل کو ان کے بارے میں معلومات کم ہونگےں۔ یہ پختونوں کا مشہور یوسفزئی قبیلہ ہے۔ بہت سارے تاریخ دانوں اور محققین نے ماضی میں اسکے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے مگر مٹی کی دھول سے دھندلا پڑ گیا ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ اپنی بساط کے مطابق اس پر سے مٹی ہٹا سکوں۔ ممکن ہے کہ تاریخی حوالوں سے کوتاہی ہو مگر کوئی محقق میری تصحیح کرے۔خوشحال خان خٹک نے اپنی ایک طویل نظم میں پختونوں کے مختلف قبیلوں کا مختصر ذکر کیا ہے۔ اور وہ کہتا ہے کہ یہ قوم اسلئے حسین ہے کہ اسکا تعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ یوسفزئی قبیلہ پختونوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ انکا آبائی ملک افغانستان ہے۔ جہاں وہ قندھار میں رہائش پذیر تھا مگر بعد میں کابل منتقل ہو گیا۔ افغانستان کے علاوہ یہ قبیلہ ہندوستان کے شہر روھیل کنڈ اور اتر پردیش میں بھی آباد تھا۔ یوسفزئی برصغیر کے ان قبیلوں میں شمار ہوتا ہے جس نے یہاں کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔افغانستان کے مغل گورنر ا±لغ بیگ جو ظہیر الدین بابر کا دادا تھا، کے زمانے میں انکو خاصی اہمیت اور شہرت حاصل ہو چکی تھی۔ الغ بیگ کو اپنے مشیروں نے یہ تاثر دیا تھا کہ یوسفزئی قبیلہ اسکی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اسی دوران سال 1485ءمیں ا±لغ بیگ نے یوسفزئی قبیلہ کے 700 سرکردہ سرداروں کو کھانے کی دعوت پر اپنے دربار میں مدعو کیا۔ ان سارے سرداروں میں ملک احمد خان اور انکا چچا ملک سلیمان شاہ جو اس وقت یوسفزئی قبیلے کا سردار تھا، بھی شامل تھے۔ مگر دھوکہ دیکر سب کو قید کر دیا اور سب کو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔ البتہ ملک سلیمان شاہ کو چھوڑ دیا کیونکہ مغلوں کیلئے اسکی کافی خدمات تھےں۔ اس موقع پر ملک سلیمان شاہ نے اپنے سر کے بدلے اپنے بھتیجے ملک احمد خان کی جان بخشیکی درخواست کی، جو منظور ہوئی۔ اپنے قبیلے کی سربریدہ لاشوں کے ساتھ ملک احمد خان جن کی اسوقت عمر صرف 14-15 سال تھی، پشاور کی طرف آگئے۔ ملک احمد خان ملک سلطان شاہ کا بیٹا تھا جو انکے بچپن ہی میں وفات پا گیاتھا۔ اسلئے انکی پرورش انکے چچا ملک سلیمان شاہ نے کی تھی، جس نے انہیں شہزادوں کی طرح پالا تھا۔پشاور میں اسوقت پختونوں کا دوسرا قبیلہ دلہ ذاک آباد تھا۔دلہ ذاکوں نے یوسفزیوں کو خوش آمدید کہا اور انہیں چارسدہ کا علاقہ دوآبہ دے دیا۔ بعد میں باجوڑ اور انبار کا علاقہ بھی انکے حوالے کیا۔ اسوقت ہشتنگر پر سوات کے بادشاہ سلطان اویس کا راج تھا۔ سلطان اویس کی بیوی ملک احمد خان کی بہن تھی مگر سلطان اویس نے اپنی بیوی کو اسلئے قتل کیا تھا کہ یوسفزیوں کا اسکے دربار میں آنا جانا بند ہو جائے۔ملک احمد خان نے سال 1510ءمیں سواتی حکمران کیخلاف ہشت نگر پر حملہ کیا اور سواتیوں کو شکست دی۔ وہ ملاکنڈ کی طرف بھاگ گئے مگر یوسفزئی لشکر نے انکا ملاکنڈ تک پیچھا کیا۔ اسطرح ہشتنگر سے ملاکنڈ تک یوسفزیوں کی حکمرانی پھیل گئی اور بٹ خیلہ میں پڑاو¿ کیا۔ سواتی حکمران سلطان اویس گھبرا گیا اور تھانہ کو اپنا مرکز بنا لیا اور یوسفزیوں کیخلاف جنگ کی تیاری شروع کردی۔ جبکہ ملک احمد خان اور اسکے جانبازوں نے سوات پر قبضہ کرنے کی ٹھان لی۔ سال 1515ءمیں یوسفزیوں اور سواتیوں کے درمیان خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ سوات کے میدانی اور پہاڑی علاقے خون سے لت پت ہو گئے مگر آخرکار سواتیوں کو شکست ہو گئی۔ سلطان اویس بھاگ کر منگلور چلے گئے اور وہاں سے نیاگ درہ میں کافروں کے پاس پناہ لے لی۔ پورے سوات پر یوسفزیوں نے قبضہ کر لیا اور تھانہ کو اپنا مرکز بنایا۔ اور پختونخوا بنانے کے آخری مرحلے کا آغاز کر دیا۔ اس دوران مردان کے کلپانی کے مقام پر دلہ ذاکوں نے ایک یوسفزئی لڑکی کا دوپٹہ کھینچ کر پھاڑ دیا۔ جس پر یوسفزئی قبیلہ آگ بگولا ہو گیا۔ ملک احمد خان نے دلہ ذاکوں سے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا مگر دلہ ذاک مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے لڑنے پر آمادہ ہوئے۔ یہ واقعہ اس علاقے سے دلہ ذاکوں کے نکلنے کا سبب بنا۔ ملک احمد خان نے گدون اور افغانستان کے تمام قبیلوں سے مدد کی درخواست کی۔ درخواست کا یہ پیغام شیخ مَلِی کے ہاتھ بھیجا گیا۔ گدون اور افغانستان کے تمام قبیلے مسلح ہو کر یوسفزیوں کی مدد کیلئے روانہ ہوئے۔ ادھر دلہ ذاکوں نے بھی خوب تیاری کی۔16 اپریل 1520ءکو ملک احمد خان کے علاوہ یوسفزئی قبیلہ سلیم خان اور گجو خان کی قیادت میں کاٹلنگ سے روانہ ہوا۔ شہباز گڑھی سے دلہ ذاک لشکر جنگ کیلئے چل پڑا۔ دونوں افواج کا گدر کے مقام پر آمنا سامنا ہوا۔ ایک بہت بڑی خوفناک اور خونریز لڑائی کے نتیجے میں دلہ ذاکوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ چھچھ کی طرف نکل گئے پختونخوا کے سارے میدانی اور پہاڑی علاقے سوائے پشاور کے یوسفزیوں نے قبضہ کر لئے۔ملک احمد خان نے اعلان کیا کہ دلہ ذاکوں کے زنانہ، بوڑھوں، بچوں اور غیر مسلح افراد کی عزت ہر یوسفزئی پر فرض ہے۔ کسی کو قید نہیں کیا جائیگا، سب کیلئے امن کا اعلان کر دیا۔16 اپریل 1520ءکو صوابی کے گاڑ منارہ کے مقام پر ایک آزاد اور خودمختار پختونخوا کا اعلان کر دیا۔ ملک احمد خان نے اپنے چچا ملک سلیمان شاہ اور 700 دوسرے یوسفزئی سرداروں کی روحوں کو سکون پہنچایا جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ملک احمد خان نے تھانہ کے مقام پر اپنا دارالخلافہ قائم کیا۔ انکی سلطنت میں ہشتنگر، مردان، صوابی، سوات، باجوڑ اور دیر کے علاقے شامل تھے۔ملک احمد خان نے شیخ ملتون جو عرف عام میں شیخ مَلِی کے نام سے مشہور ہے، کو پختونخوا میں ساری اراضی افغان قوموں میں انصاف سے تقسیم کرنے کا ٹاسک حوالے کیا تاکہ پختونوں کے تمام قبیلے پختونخوا کو اپنی ملکیت تسلیم کریں۔ تاریخ ملک احمد خان کی باریک بینی، بصارت اور عظمت کی گواہی دیتا ہے۔ ملک احمد خان نے دس سال تک پختونخوا پر حکومت کی۔ سال 1530ءمیں علالت باعث اس نے حکمرانی سے دستبرداری کا اعلان کیا اور ملک گجو خان کو اپنی جگہ نامزد کر دیا۔ پختونوں کا یہ قابل قدر سردار سال 1535ءمیں وفات پا گیا اور الہ ڈھنڈ ڈھیری کے مقام پر سوات کے پرانے راستے کے قریب سپردِ خاک کر دیا گیا۔ آج سے تقریباً 8 سال قبل اسوقت کی صوبائی حکومت نے ان کی قبر پر عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا۔